وی او اے کی خصوصی سیریز

ختم ہوتے قصبے

امریکہ کی تاریخ شہری علاقوں میں منتقل ہونے کی مثال ہے۔ جب ملک بنا تو محض چند فیصد لوگ شہروں میں رہتے تھے۔ ایک سو سال پہلے آدھی سے زیادہ، اور اب یہ تعداد 80 فیصد ہے۔ اس کے باوجود، دیہی اور چھوٹے شہروں کی زندگی کا مثالی نقطہ نظر حقیقت سے کہیں زیادہ مقبول تخیل میں طویل عرصہ تک جاری رہا

ٹرانسکرپٹ:

میں اُس وقت سے اس قصبے میں رہ رہا ہوں جب میں صرف 9 سال کا تھا۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کبھی زندگی سے بھرپور دکھائی دیتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے پوری دنیا اس میں سمٹ آئی ہو۔ 60 اور 70 کی دہائی میں یہاں کپڑوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ جوتوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں ساحل سے ساحل تک ایک اسٹور تھا۔ ہارڈ ویئر کی دکانیں بھی تھیں۔ ایک حجام کی دکان تھی۔ ریسٹورانٹ تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا آپ شکاگو کے ڈاؤن ٹاؤن سے گزر رہے ہیں۔

جب کالج بند ہوا تو کاروبار متاثر ہوئے۔ یہ اسٹور۔۔۔ میں اُس وقت یہاں آیا کرتا تھا جب میں ایک نوجوان لڑکا تھا۔  میرے والدین مجھے  بال کٹوانے یہاں لایا کرتے تھے۔ اور جب آپ دروازے سے اندر داخل ہوتے تھے تو 10 سے 13 افراد  بال کٹوانے کے انتظار میں کرسیوں پر بیٹھے دن بھر کے کاروبار کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوتے تھے۔

آج دکانیں بند ہیں اور لوگ جا چکے ہیں۔ مجھے واقعی بہت دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ سب دکانیں ختم ہو چکی ہیں اور عمارتیں خالی ہو گئی ہیں۔ اب تو یہ شہر  بھوتوں کی نگری دکھائی دیتا ہے۔

اب صرف بہت سے بوڑھے افراد ہی یہاں موجود ہیں۔ اب یہاں زیادہ بچے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ سب یہاں سے جا چکے ہیں۔

اُن کیلئے یہاں کچھ کرنے کو باقی نہیں رہا۔ مجھے یہ اب بھی بہت پسند ہے۔ مجھے چھوٹے  قصبے پسند ہیں۔ میں مرنے تک یہیں رہوں گا۔

—راجر براشا, رٹائرڈ فیکٹری مزدور

ماونٹ کیرول، النائے