وی او اے کی خصوصی سیریز

مذہب کی مرکزیت

نصف صدی سے زیادہ سے مذہب اور آئین کو علہدہ رکھنے کی کوششوں کو بعض لوگ مسیحی اقدار پر حملے کے طور پر دیکھتے ہیں، 1960 کی ابتدا میں اسکولوں میں ہونے والی عبادت سے لے کر مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مسیحی اکثریت کی جو ڈیوس کاونٹی میں مذہب کے محاصرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے

ٹرانسکرپٹ:

میں ہفتے میں کم از کم ایک دفعہ گرجا گھر آتی ہوں۔ میں نے اور میرے شوہر نے، ہم نے اسی گرجا گھر میں اپنے بچوں کو پروان چڑھایا ہے۔

اس ملک میں زیادہ تر لوگ خدا  کو مانتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو نہیں مانتے،لیکن انہیں  دوسروں پر اپنے نظریات مسلط نہیں کرنے چاہئیں، اور،  نہ ہی انہیں  دوسروں کو بتانا  چاہئیے  کہ وہ غلط ہیں اور یہ کہ زندگی گزارنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ زندگی ایسے گزاری جاتی ہے۔ نہیں۔

آپ کو کرسمس مبارک کہنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آپ اپنی اقدار مسلط کر رہے ہیں، آپ ٹھونس رہے ہیں، نہیں میں ایسا نہیں کر رہی۔ میں تو صرف آپ سے اُن  نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہوں، جو میرے دل سے نکلتی ہیں۔

ہم نے مذہبی آزادی کیلئے بہت دعا کی ہے۔ گزشتہ آٹھ سال کے دوران، ہمیں یہ محسوس ہوا تھا کہ مذہب کو ذک پہنچائی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، اوبامہ کے دور میں، صحت عامہ سے متعلق نئے قوانین، جن میں مذاہب کو زبردستی وہ کام کرنے کیلئے اوررقم  دینے کیلئے مجبور کیا جا رہا تھا، جن پر وہ یقین ہی نہیں کرتے تھے، اور جو اُن کے بنیادی عقائد کے خلاف تھے۔ نہیں یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ آپ کو کسی دوسرے مذہب کے عقائد میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہئیے۔

امریکہ کا قیام یہود و مسیحت کی اقدار اور اُصولوں پر ہوا تھا، اور ہم اُنہیں جاتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب آپ امریکہ کو مذہب اور آزادی سے دور جاتا ہوا دیکھتے ہیں، جن کیلئے آپ کے باپ دادا نے تگ ودو کی اور جس کیلئے وہ یہاں آئے، تو پھر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں چیزیں درست سمت میں نہیں جا رہیں۔ اس ملک میں ایسا ہونا درست نہیں لگتا۔

—وکی میڈنڈرف, نرس

مینومنی، النائے