وی او اے کی خصوصی سیریز

جعلی خبروں کے لیبل کی مقبولیت

گزشتہ چند سالوں میں جعلی خبروں کی ویب سائٹس تیزی سے بنی ہیں۔ سنسنی خیز حقائق کے بغیرجو کبھی سیاست اور کبھی مالی فوائد کےلیے استعمال کی جاتی ہیں۔ جعلی خبروں کا جملہ صدر ٹرمپ نے روایتی میڈیا کے خلاف استعمال کیا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے خاف ناجائز تنقید کرتے ہیں، اور اس کی عکاسی ماونٹ کیرول جیسے چھوٹے قصبے میں بھی نظر آتی ہے۔

ٹرانسکرپٹ:

میں ایک نہایت ہی چھوٹے سے قصبے کے ہفتہ وار اخبار کا پبلشر، مالک اور ایڈیٹر ہوں۔ ماؤنٹ کیرل نامی اس قصبے میں لگ بھگ 1600 لوگ بستے ہیں۔

مقامی خبروں سے ہی ہماری روزی روٹی چلتی ہے۔ میں کہوں گا کہ میں بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں، میرا مطلب ہے ہماری اس کمیونٹی میں اور ہمارے ملک میں۔ ان کا عمومی رویہ کچھ ایسا ہے کہ یہ کسی بھی چیز میں یقین نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں پر چونکہ وہ یقین نہیں کرتے، وہ اُن خبروں پر اعتبار بھی نہیں کرتے جو قومی نشریاتی ادارے، تمام قومی نیٹ ورک اور نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ یا شکاگو ٹری بیون جیسے ملک کے بڑے اخبار  پیش کرتے ہیں۔ وہ ان تما م اداروں کی جانب سے پیش کی جانے والی خبروں کو شک کی نگاہ  سے دیکھتے ہیں۔

کچھ لوگ ہیں جو مذاقاً مجھ سے کہتے ہیں، ’’اوہ باب! کیا یہ خبر جعلی ہے؟‘‘ یا پھر’’ مجھے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ بات سچ  نہیں ہے؟‘‘ وہ ایسا مذاق کرتے رہتے ہیں۔ وہ دراصل وہی بات کہ رہے ہیں جو وہ قومی ذرائع ابلاغ کے بارے میں ٹیلی ویژن پر سنتے ہیں۔

اس رویے کی داغ بیل ہمارے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے دماغ میں بھی پڑ چکی ہے۔ اُنہیں بھی اس بات کا یقین نہیں رہا کہ کیا وہ ان پر یقین کریں یا نہ کریں۔ یہ صورت حال مقامی سطح تک پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ سب لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

میں یہ کہوں گا کہ ہمارے ہاں مقامی سطح پر محض مذاق کے علاوہ ایسی صورت حال موجود نہیں ہے۔ یہاں لوگ صرف مذاق میں ایسا کہتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ بات اُن کی سوچوں میں موجود نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں غور کر رہے ہیں۔ آپ حیران ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ سلسلہ بالآخر کہاں تک پہنچے گا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ سلسلہ اُسی طرف جا رہا ہے۔

—بوب واٹسن, اخبار کے ایڈیٹر

ماونٹ کیرول، النائے