وی او اے کی خصوصی سیریز

نسل پرستی

صدارت کی دوڑ کا اعلان کرتےہی، ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکینِ وطن کو جرائم سے جوڑا ہے۔ اسی طرح جب وہ سیاہ فام امریکیوں کا ذکر کرتے ہیں، تو جلد ہی گفتگو کا رخ جرائم کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ ایسے شواہد کے باوجود کہ یہ سب کچھ مزید گمراہی پیدا کر رہا ہے، صدر ٹرمپ کی سوچ کی گونج ٹامپیکو النائے میں سنی جا سکتی ہے، جہاں 99 اعشاریہ 74 فیصد رہائشی سفید فام ہیں

ٹرانسکرپٹ:

یہ ٹامپیکو، النائے، ہے جہاں رانلڈ ریگن پیدا ہوئے۔ انہوں نے جو کچھ کیا میں 100 فیصد اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ لیکن ہاں، ہم یہاں ریگن پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

میں اٹھاون سال کی ہوں۔ میں نے کبھی ملک کو اتنا منقسم نہیں دیکھا جتنا گزشتہ تین سال کےدوران دیکھا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف نسل کو بنیاد بنا رہے ہیں۔ ہم سب امریکی ہیں۔ اگر ہر کوئی ایک ہی جیسےاُصولوں پر زندگی بسر کرتا، تو پھر یہ سب نہ ہوتا۔

ہاں، ہم سب کو تشویش تو ہے، لیکن میرا سلوک آپ سے اس لئے مختلف نہیں ہو گا کہ آپ افریقی امریکی ہیں، یا میکسیکو کے رہنے والے امریکی ہیں ۔ ہر ایک امریکی ہے۔ اگر آپ امریکی شہری ہیں، تو پھر یہ بات معنی نہیں  رکھتی کہ آپ کس نسل سے ہیں۔ اگر آپ مجھے عزت دیں گے تو میں بھی آپ کو عزت دوں گی۔ اگر آپ کسی کو لوٹتے ہیں، تو اپ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر آپ کسی کو گولی مار دیتے ہیں تو آپ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ ایسا ہی ہے؟ تو کیا میں ایسے شخص کی عزت کروں گی جس نے مجھے لُوٹا؟۔۔ نہیں۔

ہمارے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے قوانین پر حملے ہو رہے ہیں۔ اگر ہم نے قانون کی پاسداری نہ کی اور اگر قانون نافذ کرنے والوں کا احترام نہ کروایا تو میرے خیال میں پھر ہم قانون کا احترام نہیں کرتے۔

کیا یہ نسل پر مبنی جنگ ہے؟ کیا یہ نسل کی بنیاد پر ہونے والی لڑائی بن جائے گی۔  کیا ہم اِسے تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسا  کر سکتے ہیں؟  ہم صرف یہ امید اور دعا ہی کریں گے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔

—بونی اینڈرسن, شراب خانے کی مالک

ٹامپیکو، النائے