وی او اے کی خصوصی سیریز

کاشتکاری کا مستقبل

امریکہ میں کاشکاری بڑی عمر کے افراد کا پیشہ بنتا جا رہا ہے۔ ملک کے دو تہائی کاشتکاروں کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ بڑے شہروں کا لالچ ہے۔ ایک وجہ کاشت کے خاندانی کاروبار کو کارپوریٹ سیکٹر میں ضم کیا جانا ہے، جس نے اس کاروبار کی شکل بدل دی ہے۔

ٹرانسکرپٹ:

اس زرعی فارم کو میرے دادا نے شروع کیا تھا، بعد میں میرے والد نے اس کی دیکھ بھال شروع کر دی۔  اب، اگر میں چاہوں، تو یہ میرے پاس آ جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو۔ بہت سے سوال ہیں۔ ہماری معیشت کیسی ہو گی؟ اس لئے، میں چاہتا ہوں کہ اپنی ڈگری حاصل کروں، تا کہ میری زندگی میں کچھ استحکام ہو، میرے پاس میڈیکل انشورنس ہو، مجھے پتہ ہو کہ میرے پاس لگی بندھی آمدنی آئے گی، کیونکہ اگر آپ صرف کھیتی باڑی کریں تو پھر، کسے علم ہے کہ رقم آئے گی یا جائے گی۔ اور پھر آپکو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ آپکی  صحت کیسی ہو گی۔

کھیتی باڑی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ نوکری نہیں کرتے، تو پھر اگر قسمت اچھی ہوئی تو اچھی ہیلتھ انشورنس ملے گی۔ میرے نزدیک  ہر کسی کو قابلِ خرید ہیلتھ انشورنس  تک رسائی ہونی چاہئیے، لیکن اس وقت ایسا نہیں ہے۔ اس شعبہ میں ایک طرح کی بے یقینی ہے۔

میرے اور میری نسل کے نزدیک، امریکہ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں؟ یہ گمان کہ اگر آپ محنت کریں گے، تو آپ اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکتے ہیں، تو میرے خیال میں اب یہ تصور تھوڑا سا خطرے میں ہے۔

میں ہر رات یہاں آ کر اپنے دادا سے باتیں کرتا ہوں۔ جب وہ میری عمر کے تھے تو انہیں بھی یہی خدشات اور پریشانیاں تھیں۔ وہ انیس سو تیس اور چالیس کی دہائی میں بڑے ہوئے تھے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا اسوقت صورتحال آج جیسی تھی، لیکن یہ سوال یکساں تھا کہ آگے کیا ہو گا۔ اسلیے، ایک طرح سے، اُن کی باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں، کہ جب وہ میری عمر کے تھے، تو وہ بھی یہی سوچتے تھے کہ آگے چل کر کیا ہو گا۔

—کانر مکارمک, کاشتکار

مےول ٹاون شپ، منیسوٹا