الی نائے، فُلٹن کے فُلٹن کمیونٹی سینٹر میں ہر ہفتے کئی خواتیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ وہ سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں، گپ شپ لگاتی ہیں، لین سیاست پر بات نہیں کرتیں۔
ریاست الی نوئے کے قصبے فُلٹن کے کمیونٹی سینٹر میں، بجلی سے چلنے والی سلائی مشینوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ہر ہفتے بہت سی عورتیں، سلائی کڑھائی کیلئے یہاں جمع ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ گپ شپ بھی جاری رہتی ہے۔ لیکن ایک موضوع ہے جس پر یہ سب بات کرنے سے گریز کرتی ہیں، اور وہ ہے سیاست۔ اس کی وجہ ان سب کے مختلف سیاسی موقف ہیں۔
وایٹ سائیڈ کاؤنٹی کے مشرقی علاقے کے قصبے روک فالز کی رہنے والی، لنڈا ایِبرسول، نرس تھیں، تاہم اب وہ اپنے کام سے ریٹائر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے سلائی کے کام سے وقفہ لیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سب امیدواروں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا تھا، لیکن کوئی بھی ان کے معیار پر پورا نہیں اترا۔
بقول ان کے، آخر میں سب، ذرا کم برے امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے تھے۔
لِنڈا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انٹ شنٹ بول دیتے ہیں، اس لئے اُن کے کہے پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، جبکہ ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن، بہت سے مواقع پر جھوٹ بول چکی ہیں، اور رائے دہندگان کا احترام نہیں کرتیں۔
راک فالز، الی نائے کی لنڈا ایبر سول فُلٹن کمیونٹی سینٹر میں
میڈیا کو ٹرمپ کے خلاف دیکھنا
تاہم آخر میں، لنڈا نے ٹرمپ کو ووٹ دیا، کیونکہ وہ، بقول ان کے، تبدیلی لانے میں مخلص نظر آتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ قومی میڈیا، ٹرمپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔
انہوں نے کہا جب بھی میڈیا کو کہیں سے کوئی سن گن ملتی ہے کہ ٹرمپ نے کچھ غلط کیا ہے، تو وہ اس چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے غیر منصفانہ رویے کے طور پر دیکھتی ہیں، جس سے وہ ٹرمپ کی مزید حامی ہو جاتی ہیں۔
لنڈا کا کہنا تھا کہ نیوز میڈیا ٹرمپ کے خلاف تعصب رکھتا ہے، کیونکہ اگر ٹرمپ ایک دن میں تین مثبت کام کرتے ہیں اور ایک منفی، تو میڈیا کا سارا زور منفی کام کو ابھارنے پر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی دھارے کے ٹیلی وژن نیٹ ورک کی خبریں دیکھتی، اور مقامی اخبار پڑھتی ہیں، لیکن انتخابات کے بعد، وہ قدامت پسند خیالات کے حامی کیبل نیٹ ورک فاکس نیوز کو دیکھتی ہیں، کیونکہ وہ توازن قائم رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ بھی انتظامیہ نواز نیٹ ورک کو پسند کرتے ہیں، اور اپنے ناقد میڈیا کو مسترد کرتے ہوئے اُسے جعلی خبریں قرار دیتے ہیں۔
لنڈا کو بہت سے نوجوانوں کے بارے میں اس لئے تشویش ہے کیونکہ وہ خبروں پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان لوگ، اینٹرٹینمنٹ کے مقبول پروگرام دیکھتے ہیں، جو ان کے نزدیک قدامت پسندوں کی تضحیک کرتے ہیں جبکہ آزاد خیال میڈیا کو خال خال ہی نشانہ بناتے ہیں۔
تارکین وطن سے متعلق قومی سطح کے معاملے کی گونج یہاں وایٹ سائیڈ کاؤنٹی میں بھی سنائی دیتی ہے، حالانکہ یہاں مقابلاً بہت کم تارکینِ وطن آباد ہیں۔ لنڈا کہتی ہیں کہ قانونی حیثیت رکھنے والے تارکینِ وطن جو یہاں کی زندگی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، اُنکا کھلی باہوں سے استقبال کیا جانا چاہئیے، جیسےکہ غیر ممالک میں پیدا ہونے والے صحت کی دکھ بھال سے متعلق پیشے سے وابستہ افراد، جو یہاں آباد ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں مسلمان تارکینِ وطن کیساتھ ثقافتی تضاد کے تجربات ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سٹور میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں، جب سر سے پیر تک لمبے لباس میں ملبوس، سر پر سکارف باندھے ایک بوڑھی عورت سٹور میں داخل ہوئی، اور لائین کاٹ کر آگے کھڑی ہو گئیں، اور جب میں نے اُس عورت کے ساتھ آنے والے نوجوانوں سے اس بارے میں بات کی، تو انہوں نے صرف کندھے ہلا دیے۔
لنڈا کہتی ہیں کہ وہ خاتون اپنے خاندان کی سربراہ تھیں، اوروہ اس خیال میں تھیں کہ اُنہیں قطار میں کھڑا ہونےکی کیا ضرورت ہے، لیکن جب ایسے لوگ یہاں آتے ہیں تو انہیں جتنا ممکن ہو سکے، اس معاشرے اور ثقافت کا حصہ بننا چاہئیے۔
اسی طرح لندا کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایسے تارکین وطن کو بلکل قبول نہیں کرنا چاہئیے، جو ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد یا پھر چوری چھپے سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے تارکین وطن کو قانونی طریقے سے امریکہ آنا چاہئیے۔
لنڈا کہتی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے، صدر ٹرمپ کے چھے مسلمان ملکوں سے آنے والے تارکینِ وطن کے امریکہ داخلے پر پابندی کی حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی مکمل جانچ پڑتال ہونی چاہئیے، اور انکی تعداد مناسب اور معقول ہونی چاہئیے،
انہوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا سے ہر کسی کو قبول نہیں کر سکتے
لنڈا کہتی ہیں کہ الی نوئے کے دیہی علاقے کے لوگوں میں موجود ایسے سیاسی نظریات، عام فہم سی بات ہے۔
ڈیموکریٹ جماعت کی امیدوار، ہلیری کلنٹن ریاست الی نوئے میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ یہی بات جدید قدامت پسندی کے ہیرو، آنجہانی صدر رونلڈ ریگن پر صادق آتی ہے، جو وائٹ سائیڈ کاؤنٹی ہی میں پیدا ہوئے، اور مشرق کی جانب ایک دوسری کاؤنٹی ڈکسن میں پلے بڑھے۔ صدر ریگن کے کچھ رشتےدار، یہاں فُل ٹن کے قبرستان میں دفن ہیں
گزشتہ انتخابات میں منظر عام پر آنے والی تقسیم کے باوجود، لنڈا کو یقین ہے کہ ان دو بلکل مختلف سوچ رکھنے والے سیاستدانوں کے بنیادی عقائد ایک جیسے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی بہت سی مشترکہ اقدار ہیں جن پر آپ متفق ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی اقدار کا آپ کے پاس ہونا ہی اس علاقے کی قوت ہے، جیسے کہ خاندان، اور بہت دفعہ عقیدہ۔ آپ کے پاس یہ بنیادی عقائد، ایک طرح سے سیاست سے بالا تر ہوتے ہیں۔