سردیوں کی دھوپ میں چمکتی، ذرعی مشینیں، غلہ اور چارہ ذخیرہ کرنے کے گوداموں کے درمیان، دیہی آبادیوں سے گزرتی ایک سڑک پر، ہمیں ایک شخص، کھلے گیراج میں کام کرتا نظر آیا۔
اس ستاون سالہ شخص کا کہنا تھا کہ وہ بس تھوڑا بہت کام کرلیتا ہے، “اس سے میرے ہاتھ پیر چلتے رہتے ہیں اور دھیان بٹا رہتا ہے”۔ وہ ٹوٹی پھوٹی چیزوں سے دھاتیں نکال کر تھوڑے سے پیسے کماتا ہے، لیکن اس نے کہا کہ یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔
صرف دو سال پہلے تک، اس کا ایک چھوٹا سا ڈیری فارم تھا، جس میں چوبیس گائیں تھیں۔ لیکن دیگر چھوٹے فارموں کی طرح، بڑے فارموں کے سامنے اُنہیں کام بند کرنا پڑا۔
اس نے بتایا کہ صحت عامہ سے متعلق ایفورڈ ایبل کیئر ایکٹ، یعنی اوبامہ کیئر نامی قانون کے تحت صحت کی پالیسی سے، چیزیں بد تر ہوتی چلی گئیں۔ اس سمیت اس کے بہت سے دوستوں کو مجبوراً، اپنی حیثیت سے زیادہ پیسے دینے پڑتے تھے، اور وہ بھی ایک ایسی چیز کے لئے جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔
اس شخص نےتیز لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عشروں سے جاری حکومتی پالیسیوں نے، جنہیں یہاں سخت گردانا جاتا ہے، ان لوگوں میں اشتعال اور اِن شبہات کو ہوا دی ہے کہ ایسے پروگراموٕں سے امریکیوں کی زندگیاں بہتر ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درجنوں کاؤنٹیوں میں، لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے جبکہ پہلے انہوں نے صدر اوباما کو ووٹ دیا تھا۔ اوراب، انکے بقول، یہاں کے رہائشی، روایتی سیاستدانوں پر اعتبار نہیں کرتے۔
اُنہوں نے کہا کہ “ساری رقم تو شہروں پر خرچ ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے، دیہاتوں میں رہنے والے تمام لوگوں نے کہا کہ بس اب بہت ہو چکا”۔
ٹرمپ کو ووٹ دینے کے معنی تھے، اوبامہ کیئر کے خلاف ووٹ دینا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ “اوبامہ کیئر سے مجھے فائدہ پہنچا ہے”۔
دو سال پہلے انہیں ہنگامی طور پر اپنی ٹانگ میں پیدا ہونے والے ناسور کا آپریشن کروانا پڑا، جس کی وجہ سے اُنہیں کام کرنے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اب ان کی مرکزی آمدنی کا ذریعہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ معذوری الاؤنس ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن سے دو ہفتے پہلے ہی انہوں نے اوبامہ کیئر کے تحت انشورنس حاصل کی تھی۔
کھیتی باڑی چھوڑنے والے یہ کسان، اُن دو لاکھ افراد میں سے ہیں، جنہوں نے ریاست وسکانسن میں اس سے پہلے ہیلتھ انشورنس حاصل نہیں کی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اب ان کو اور اِن جیسے مزید دو لاکھ افراد کو صحت سے متعلقہ انشورنس کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بھی حاصل ہیں۔
اس کے باوجود اُن کا کہنا ہے کہ تقریباً اُن سب کو جنہیں وہ جانتے ہیں، اور جنہوں نے سرکاری انشورونس حاصل کی، ان میں سے کوئی بھی سخت بیمار نہیں پڑا، مگر وہ سب، اِس انشورنس کی بہت بڑی قسط ادا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، کہ اگر انہیں اس کی ضرورت بھی ہو، تو بھی، یہ اپنی آزاد مرضی سے لی جانی چاہئیے، نہ کہ حکومت کی جانب سے لازمی قرار دیئے جانے کی وجہ سے۔
ہلکا سا لنگڑا کر چلنے والے اس شخص نے، ا پنا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کاؤنٹی کے باقی رہائشیوں کی اس بات پر یقین نہ کریں کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کی حمایت، ایفورڈ ایبل کیئر ایکٹ کی بجائے کسی اور وجہ سے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نہ غلے کی کوئی قیمت ہے، اور نہ مویشیوں کی، کیونکہ جب اشیائے خوردنی کی قیمتیں گرتی ہیں، تو اس کی وجہ سے اِن کے علاقے کو نقصان پہنچتا ہے۔ “اور اب حکومت چاہتی ہے کہ ہم ہیلتھ کیئر خریدیں؟