بنگلہ دیش

میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا چاہتی ہوں

مالا اختر نے اپنے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر ایک لڑکے رونی سے شادی کر لی جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ مالا اس وقت صرف 12 برس کی تھی۔ اس سے دو برس تک جسمانی اور زبانی طور پر زیادتی کی جاتی رہی۔ وہ ایک بچے کی ماں بن گئی اور اس دوران وہ کھانا بھی پکاتی رہی۔ دو سال تک یہ سعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اب وہ سوچتی ہے کہ اس کا شادی کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ مالا ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی بنا سکے کیونکہ اس کا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ وہ اس کی پرورش بہترین انداز میں کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں نہیں چاہتی کہ کوئی اور بھی وہ غلطی کرے جو میں نے کی تھی۔

’’ٹرانسکرپٹ‘‘

میرا نام مالا اکبر ہے۔ میں 14 سال کی ہوں۔ میری شادی اب سے دھائی سال قبل ہوئی۔

جب میں 12 سال کی تھی اور سکول میں پڑھتی تھی تو مجھے ایک لڑکے سے محبت ہو گئی۔ میں اس سے بہت شدت سے پیار کرتی تھی اور پھر ہم نے شادی کر لی۔ میرے والدین نے اس بات کو سخت ناپسند کیا۔

میں اگرگاؤں میں رہتی ہوں۔ یہ بی این پی کی ایک کچی بستی ہے۔

میرے شوہر کا نام رونی ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن شادی کے بعد اس نے میرے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ دو روز قبل اس نے مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا۔

وہ میرے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔

اگر وہ ہر روز کام نہیں کرتا تو گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ پانچ دن کیلئے یا پھر دو دن کیلئے بھی انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر شدید گرمی کے اس موسم میں اس کی کوئی سیل نہیں ہوتی۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس وقت بھی سیل مشکل ہو جاتی ہے۔ پھر پولیس اچانک پہنچ جاتی ہے اور ہمیں یہ جگہ خالی کرنے کا حکم سنا دیتی ہے۔

ایسے دن بھی ہوتے ہیں جب ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ دن پہلے ہڑتال کی وجہ سے اس کی دکان بند رہی۔ اس وقت ہم صرف دال، ابلے ہوئے آلو اور کچھ سبزی ہی کھا سکے۔ یہ بہت مشکل تھا۔ لیکن حالات ایسے ہی تھے۔

میرے شوہر کیلئے کھڑے رہتے ہوئے چیزیں بیچنا مشکل ہوتا ہے۔ میرے بچے کیلئے بھی صورت حال خاصی مشکل ہے۔

ہم چونکہ باقاعدگی سے کھانا نہیں کھا پاتے، ہمیں اکثر کمزوری محسوس ہوتی ہے اور چکر آنے لگتے ہیں۔ ہر چیز ہمیں تکلیف دیتی ہے۔

بعض اوقات میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے بیٹھ جانا چاہئیے۔ لیکن جب میں اٹھتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں بے ہوش ہونے والی ہوں۔ مجھے بہت کمزوری محسوس ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے میں بیمار ہوں۔

مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میں نے شادی کی۔

اگر میں نے کچھ عرصے بعد شادی کی ہوتی تو شاید میری صحت کچھ بہتر ہوتی۔ ہر چیز بہتر ہوتی۔

شادی کرنا بہت بڑی غلطی تھا۔

میں مستقبل میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا چاہتی ہوں۔

میرا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ میں اسے بہتر انداز میں پالنا چاہتی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی دوسرا بھی وہ غلطی کرے جو میں نے کی۔

A version of this video originally appeared on Facebook.

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )