پاکستان

‘میرے والد کا خیال تھا کہ شادی میں دیر کرنا گناہ ہے۔

پاکستان کی کبریٰ بی بی کا کہنا ہے، ’’میرے باپ کا کہنا تھا کہ جب ایک لڑکی اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ وہ پانی کا گھڑا اٹھا کر گھر لا سکے تو اس وقت اس کی شادی نہ کرنا ایک گناہ ہے۔‘‘

لہذا 13 سالہ کبریٰ کی شادی ایک ایسے مرد سے کر دی گئی جو اس سے دو گنا زیادہ عمر کا تھا۔ اس کا شوہر ڈوڈو خان اسے جنوب مشرقی صوبے سندھ کے ایک گاؤں پیر بخش لاشاری میں اپنے خاندان کے گھر لے آیا۔ اسے ایک ایسی لڑکی کی ضرورت تھی جو اس کی بیمار بیوہ ماں اور گھر کا خیال رکھ سکے۔

کبریٰ اب 19 سال کی ہے۔ وہ اپنی تعلیم ختم کرنے کے بارے میں دوسروں کے کیے گئے فیصلوں سے پریشان ہے۔ اس کی تعلیم اس وقت ختم کر دی گئی جب وہ آٹھویں جماعت میں تھی اور وہ تعلیم چھوڑ کر گھر کی دیکھ بھال اور بچے پیدا کرنے میں لگ گئی۔ ڈوڈو اور کبریٰ کی ایک تین سالہ بیٹی اور ایک چھوٹا بیٹا ہے۔

کبریٰ بتاتی ہے، ’’شادی کے بعد پورے گھر کی ذمہ داری مجھ پر آ پڑی اور مجھے کھانا پکانے اور کپڑے دھو کر سکھانے پر لگا دیا گیا۔ مجھے اب بھی تعلیم حاصل کرنے کا شدت سے شوق ہے۔ جب میری بیٹی مناسب حد تک بڑی ہو جائے گی تو اس کی شادی ہو جائے گی۔ بصورت دیگر وہ تعلیم کیسے جاری رکھ سکے گی۔‘‘

 کبریٰ کی تصویر، وہ اپنے شوہر ڈوڈو خان اور بیٹے اور بیٹی کے ساتھ بیٹھی ہے۔

کبریٰ اب 19 سال کی ہے۔ وہ اپنے 30 سالہ شوہر ڈوڈو خان اور اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ بیٹھی ہے۔ (فوٹو: زورل خرم نائک، وی او اے کیلئے)

کبریٰ اب 19 سال کی ہے۔ وہ اپنے 30 سالہ شوہر ڈوڈو خان اور اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ بیٹھی ہے۔ (فوٹو: زورل خرم نائک، وی او اے کیلئے)

 کبریٰ خان اور اس کے بیٹے کی تصویر

کبریٰ اپنے 5 ماہ کے بچے عبدالوہاب کے پنگھوڑے کو ہلاتے ہوئے لوری سنا رہی ہے۔

کبریٰ اپنے بیٹے عبدالوہاب کو اٹھائے خود اپنے لیے مذید تعلیم کے خواب دیکھ رہی ہے

LEFT: کبریٰ اپنے 5 ماہ کے بچے عبدالوہاب کے پنگھوڑے کو ہلاتے ہوئے لوری سنا رہی ہے۔ RIGHT: کبریٰ اپنے بیٹے عبدالوہاب کو اٹھائے خود اپنے لیے مذید تعلیم کے خواب دیکھ رہی ہے

کم عمری کی شادیاں اب بھی عام ہیں

پاکستان میں اگرچہ کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں حالیہ عشروں میں کمی واقع ہوئی ہے، کبریٰ کی طرح آج بھی ہزاروں لڑکیوں کو 18 سال سے کم عمر میں شادی کے بندھن میں باندھنے کی روایت جاری ہے۔

یونیسف کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں کم سے کم ہر 5 میں سے ایک (21 فیصد) شادیوں میں ایک پارٹنر 18 سال سے کم عمر کا ہوتا ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار حقیقی صورت سے کم بتائے گئے ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں اور غربت زدہ خاندانوں میں کم عمری کی شادیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

بچوں کے لیے وکالت کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’’گروپ ڈویلپمنٹ‘‘ [GD] کی ایگذیکٹو ڈائریکٹر ویلری خان کا کہنا ہے، ’’پاکستان بھر میں کم عمری کی بہت سی شادیوں کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔‘‘

نمبروں کے حساب سے

پاکستان

21%3%
18 سال کی عمر تک شادی کرنے والی15 سال کی عمر تک شادی کرنے والی

یونیسف کے مطابق پاکستان میں کم عمری کی شادیاں ایک نسل کا نقصان ہیں۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے تناسب میں گذشتہ 25 برسوں میں نصف حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ رجحان جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک جیسا ہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایک خطے کے طور پر گزشتہ 25 سالوں میں کم عمری کی شادیوں میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ عالمی سطح پر کمی کا باعث بھی بنا ہے۔

علاقائی موازنہ18 سال کی عمر تک </br> شادی شدہ
بنگلہ دیش59%
نیپال40%
افغانستان35%
بھارت27%
بھوٹان26%
پاکستان21%
ایران17%
سری لنکا12%

یہ جاننے کیلئے ایک ملک کا انتخاب کریں کہ اس کا موازنہ علاقے سے کیسے کیا جا سکتا ہے

Girls Not Brides کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک لڑکی کو اس وقت شادی کر لینی چاہئیے جب وہ بلوغت کو پہنچتی ہے تاکہ اس کے کنوارے پن کا فائدہ اٹھایا جا سکے اور اس کی عزت کا تحفظ کیا جا سکے۔ (https://www.girlsnotbrides.org/child-marriage/pakistan/).

پاکستان کی صحت اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ایک عالمی پارٹنرشپ کی شراکت دار ہیں۔ یہ پارٹنرشپ کم عمری کی شادیوں کی مختلف وجوہات کی جانب اشارہ کرتی ہے جن میں کچھ خاندانوں کی طرف سے قرضوں کو چکانے یا تنازعات کے حل کے لیے اپنی بیٹیوں کو بیاہ دینا اور اس کے لیے بعض اوقات بیٹی کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی شادی طے کر دینا شامل ہیں۔

پاکستان کم عمری کی شادیوں کے 2030 تک مکمل خاتمے کے بین الاقوامی عزم میں شامل ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی طرف سے پائیدار ترقی کا ایک ہدف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس روایت کا خاتمہ معیار زندگی کو بہتر بنانے اور ملکوں کی خوشحالی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

ورلڈ بینک اور خواتین کے بارے میں ریسرچ کے بین الاقوامی مرکز کے 2017 کے جائزے کے مطابق اس وقت تک کم عمری کی شادیوں سے ہونے والا سالانہ نقصان 6 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ تخمینہ لڑکیوں کی تعلیم وقت سے پہلے ختم ہونے اور آمدن کے محدود ہونے کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
](http://documents.worldbank.org/curated/en/530891498511398503/Economic-impacts-of-child-marriage-global-synthesis-report).

شادی کے لیے کم سے کم عمر کی حد بڑھانے کی کوششیں

پاکستان میں قانونی طور پر شادی کے لیے کم سے کم عمر لڑکیوں کے لیے 16 اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے۔ پاکستان کی سنیٹ نے اپریل میں ایک خاتون سنیٹر کی طرف سے پیش کردہ بل کی منظوری دی جس کے مطابق لڑکیوں کے لیے بھی شادی کی کم سے کم عمر بڑھا کر 18 سال کر دی جائے گی۔ تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے مئی کے شروع میں ایک بیان کے ذریعے اس قانون سازی کی مخالفت کی تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل پالیمنٹ کو کسی بھی قانون کے اسلامی قانون کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مشاورت فراہم کرتی ہے۔

تاہم اخبار ’پاکستان ٹوڈے‘ https://www.pakistantoday.com.pk/2019/05/03/cii-opposes-child-marriages-but-wont-support-legislation/), کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے اعتراف کیا کہ کم عمری کی شادیوں سے کچھ منفی نتائج اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئیے۔ کونسل نے 2017 میں ایسے ہی ایک اور بل پر اعتراض کیا تھا۔

ملک کے چاروں صوبوں کو بھی شادی کے معاملے میں اختیار حاصل ہے۔ 2014 میں، صوبہ سندھ جہاں کبریٰ خود رہتی ہے، قانون سازوں نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی تھی۔ سندھ کے قانون کے تحت کسی بھی مرد کو مقررہ عمر سے کم میں شادی میں ملوث ہونے پر کم سے کم دو سال قید اور ممکنہ طور پر جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں 2015 میں ایک قانون منظور کیا گیا جس میں والدین کے علاوہ نکاح خوان حضرات کو بھی کم عمری کی شادی کی اجازت دینے پر سزا کا حقدار قرار دیا گیا۔ پنجاب چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے زائد عمر کے کسی بھی مرد کے کم عمر کی لڑکی سے شادی طے کرنے پر چھ ماہ تک کی قید، 50,000 روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس قانون میں ایسے والدین یا ولی کے لیے بھی سزا تجویز کی گئی ہے جو کم عمر کے بچے کو شادی پر مجبور کریں۔

تاہم ایسے اقدامات ہمیشہ نافذالعمل نہیں ہوتے۔ لیکن ان قوانین کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادیوں کے منفی اثرات کے بارے میں عوامی شعور پیدا کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

ویلری خان کا کہنا ہے، ’’میرے خیال میں شعور بیدار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘ ان کے گروپ کی ہر قسم کا پس منظر رکھنے والے کمیونٹی کے ارکان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کسی لڑکی کی شادی بہت کم عمری میں ہو جاتی ہے تو اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں زیادہ تر مرد آواز بلند کرنے لگے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے باپ۔

2016 کے آخر میں سندھ کے ایک سول سوسائٹی گروپ سوجاگ سنسار آرگنازیشن نے نکاح خوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا جو شادی کے دوران قانونی اور مذہبی فرض انجام دیتے ہیں۔ اس تنظیم نے نکاح خوانوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کی ہے کہ وہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کا پیدائشی سرٹفکیٹ طلب کریں اور کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کی شادی کرانے سے انکار کریں۔ اس تنظیم نے سوشل میڈیا اور تھیٹر کو بھی استعمال کیا ہے جس کے ذریعے اس نے یہ ڈرامے اور رول پلے کو 30 دیہات میں لے جا کر کم عمری کی شادیوں کے نتائج کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

.

 اس تصویر میں کبریٰ ہاتھ سے بنی ہوئی کڑھائی کے ساتھ ہے

“ میں مکمل طور پر آزاد ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی ہو جانے کے بعد گھر سنبھالنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری مجھ پر آ پڑی۔”

ایک گھریلو خاتون کی حیثیت سے کبریٰ کبھی کبھی کڑھائی کا کام بھی کرتی ہے تاکہ خاندان کی آمدنی میں اضافہ کر سکے۔.

یہ سلسلہ روکنے کے منصوبے

جب سوجاگ سنسار ڈسٹرکٹ دادو میں کبریٰ کے گاؤں تک پہنچی تو کبریٰ کی شادی ہو چکی تھی اور اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام عریبہ ہے۔

کہبریٰ کہتی ہے کہ وہ بالآخر شادی کرنے کی خواہشمند تھی اور اسے یہ بھی امید تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھ پائے گی۔ اس کے شوہر کی تعلیم بھی اس وقت ختم ہو گئی جب وہ آٹھویں جماعت میں تھا۔ اب وہ تعلیم جاری رکھنے کے لیے فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس کا شوہر مزدور ہے اور وہ گھر کے خرچے پورے کرنے کے لیے ہاتھ سے کڑھائی کا کام کرتی ہے۔

کہبریٰ کا کہنا ہے، ’’میں آزاد ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی ہو جانے کے بعد گھر کے کام کاج اور بچے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس پر آ پڑی۔‘‘

وہ کہتی ہے کہ یہ ذمہ داریاں نبھانے اور بچے پالنے سے اس کی صحت متاثر ہوئی۔ جب کبریٰ کی شادی ہوئی تو وہ بلوغت کو نہیں پہنچی تھی اور گزشتہ سال جب اس کا بیٹا عبدالوہاب وقت سے پہلے پیدا ہوا تو اس کے لیے اسے خاص آپریشن کرانا پڑا۔

کبریٰ کی ماں مہر بی بی بھی 12 سال کی تھی جب اس کی شادی ہوئی۔ اس کے تین بچے تھے جن میں دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ لیکن اب وہ نسلوں سے جاری کم عمری کی شادی کے سلسلے کو روک دینا چاہتی ہے۔

مہر بی بی اعتراف کرتی ہے کہ اس نے اور اس کے شوہر نے کبریٰ کو شادی کے لیے مجبور کر کے ’’سخت غلطی کی ہے۔‘‘

وہ اپنی بیٹی اور نواسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’اب ہم جانتے ہیں کہ تعلیم ایک ضرورت بن چکی ہے۔ ہمیں مستقبل کے لیے سوچنا چاہئیے۔ اگر بیٹی کم عمر ہے تو ہمیں اس کی شادی نہیں کرنی چاہئیے۔ اسے ہر صورت تعلیم جاری رکھنی چاہئیے۔ اب ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں۔‘‘

https://www.urduvoa.com/a/childhood-marriages-dadu-sindh-pakistan/4609695.html

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )