(فوٹو بشکریہ یونیسف)

ہزاروں سال سے شادی کی بنیاد سودے بازی پر رہی ہے۔

شادی آخر کیوں کی جائے۔ حالیہ برسوں تک اس بات کا جواب طاقت، رابطوں اور تحفظ کا حصول تھا۔ تاہم تمام تر خاندانوں اور بعض اوقات تمام برادریوں یا ملکوں کے لیے شادی ایک طرح کا سودا تھا جسے محبت سے کوئی سرو کار نہ تھا۔ وائس آف امریکہ کے پراجیکٹ ’’لڑکی کی قدروقیمت‘‘ کے ایک حصے کے طور پر ہم نے ایسے ماہرین کی رائے معلوم کی جنہوں نے تمام زمانوں میں موجود شادی کی صورت حال پر تحقیق کی ہے۔ اقوام متحدہ کا مستحکم ہدف 2030 تک دنیا بھر میں کم عمر افراد کی شادیوں کا خاتمہ ہے۔ کم عمری کی شادیاں ایک ایسی روایت ہے جس کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں کروڑوں لڑکیاں اور لڑکے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ شادیوں کی تاریخ اور انسانی رویوں کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہدف کا حصول انتہائی مشکل ہو گا۔

ہیلن فشر کی تصویر فشر ماہر بشریات

نیویارک کی ماہر حیاتیاتی بشریات ہیلن فشر کے مطابق چالیس لاکھ برس قبل انسان کی پیشرو نسلیں درختوں کی پناہ گاہوں سے نکل کر کھلے ریگزاروں کی طرف چلی آئیں اور یوں مادہ نسلوں کو شدت کے ساتھ ایسے ساتھیوں کی جستجو ہوئی جو انہیں تحفظ بھی فراہم کر سکیں اور بچے پیدا کرنے میں مدد بھی دے سکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسری جانب نر نسلوں نے تحفظ فراہم کرنے اور بچوں کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

ان دونوں خواہشات نے مل کر ’’جوڑوں کی شکل میں بندھن‘‘ کی تشکیل کی۔

ہیلن فشر انڈیانا یونیورسٹی میں جنس، صنف اور تولیدگی پر تحقیق کے کنسے انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سلسلے میں ان کے ذہنوں میں ایک بہت مضبوط بندھن بھی تشکیل پایا جس کے تحت نر اور مادہ کے اس وقت تک ایک ساتھ رہنے کی کیفیت نے جنم لیا جب تک ایک بچے کی نوازائیدہ حالت سے بلوغت تک پرورش مکمل کی جا سکے۔ فشر کہتی ہیں کہ طویل عرصے کے لیے جوڑوں کے بندھن کا یہ رجحان اب سے لگ بھگ دس ہزار سال قبل وجود میں آیا جب انسانوں نے کھیتی باڑی شروع کی اور کھیتوں میں اور گھروں میں کام کاج کے لیے خاندانوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔

’’شادی ۔ ایک تاریخ‘‘ کی مصنفہ سٹیفنی کونٹز کہتی ہیں کہ شادی بلوغت سے منتقلی کی بھی علامت ہے۔ ان کے مطابق خاندان کے سربراہ اپنی برادریوں اور خاندان میں موجود لڑکیوں تک رسائی کو کنٹرول کرتے تھے اور وہ ایسی ضیافتوں کا اہتمام کرتے تھے جن میں نوجوان لڑکیوں کے خاندان رشتہ تلاش کرنے کی غرض سے شریک ہوتے تھے۔ واشنگٹن میں ایورگرین سٹیٹ کالج سے وابستہ سٹیفنی کونز کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سماجی حیثیت کا نظریہ آگے بڑھا، مردوں کی خوبصورت نوجوان لڑکیوں سے شادی کی اہلیت نے ایک ایسی صورت حال کو جنم دیا جس میں غریب گھرانوں میں لڑکی کو تصرف کی چیز سمجھا جانے لگا۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسی لڑکیاں جو اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں، انہیں بھی شادی کے حوالے سے قیمتی سمجھا جانے لگا کیونکہ انہیں مزدوری اور کام کاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

رابطوں، اثرورسوخ اور طاقت کے حصول کی خاطر لڑکیوں کی شادی سے درجہ بندی کا رجحان پروان چڑھا۔ کونز کا کہنا ہے کہ شاہی خاندانوں کے بچوں کی شادیاں اس انداز میں کی جاتیں یا انہیں طے کیا جاتا کہ جس سے موذوں سسرالی خاندانوں تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ ایسے ربط سے فوجی اتحاد، علاقائی تسلط اور خود مختاری کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔

پندرویں اور سولہویں صدی کے یورپ میں آسٹریہ کے ہیپس برگ شاہی خاندان نے اس فن میں مہارت حاصل کرتے ہوئے شادیوں کے ذریعے مذید علاقوں کو اپنے ملک میں شامل کیا اور سیاسی اتحاد بنائے اور پھر ان کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہو گئی، ’’دوسروں کر جنگ لڑنے دو جبکہ خوشحال آسٹریہ تم شادی کرو۔‘‘

مغربی افریقہ میں یوروبہ بادشاہوں نے اپنے بچوں کی شادیاں موروثی بادشاہت کی پالیسی کے تحت اپنے ہی جیسے شاہی خاندانوں میں کیں۔ جنوبی امریکہ میں ’انکا‘ شاہی خاندان نے اپنی سلطنت کو مذید بڑھانے کی خاطر اردگرد کے نسلی گروپوں سے شادیوں کے تبادلے کیے۔ اور ایشیا بھر میں موروثی شاہی خاندانوں نے شادیوں کے ذریعے اپنے علاقے میں اضافہ کیا اور نسلی اختلافات کو ختم کیا۔

کونز کہتی ہیں کہ آج کل کے دور میں غربت اور نوجوان عورتوں میں حصول تعلیم اور معاشی طور پر خود مختار ہونے کے مواقع کی عدم دستیابی کے باعث دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں نے رواج پایا۔ اور اگر یہ نوجوان عورتیں رشتہ داری کے فرائض کے ماحول والے معاشرے میں اپنا وجود رکھتی ہیں تو وہ اپنے خاندان میں خود کو شادی کے لیے ’’انتہائی شدید دباؤ‘‘ میں پاتی ہیں۔