اس تصویر میں شامی بچے کلاس روم میں اپنے ٹیچر کی بات سن رہے ہیں

لبنان میں بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو کم عمری کی شادیوں کے خطرات سے بچانے اور تعلیم فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’ہیمایہ سینٹر‘‘ کے کلاس روم میں شامی بچے۔ (وی او اے کے لیے یہ فوٹو نسیم احمدو نے کھینچی)

حل کی تلاش

لڑکیوں کے لیے سپورٹ گروپ۔ پنسلوں سے لیکر نوٹ بکس اور یونیفارم سمیت سکول سپلائیز کے عطیات فراہم کیے۔ ایسے والدین جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کے لیے بکریاں اور مرغیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ شادی کے لیے کم سے کم عمر کے تعینکے لیے قانون سازی میں مدد دی جا رہی ہے۔

یہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں سے چند ہیں۔ کم عمری کی شادیاں دنیا بھر کے غربت زدہ دیہی علاقوں کے تنگ دست خاندانوں میں عام ہیں۔

واشنگٹن میں قائم خواتین پر ریسرچ کے بین الااقومی مرکز کے ڈائریکٹر لیرک ٹامسن کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی جادو کی چھڑی موجود نہیں ہے اور اس کا حل مخصوص حالات کے تابع ہوتا ہے۔

قومی اور مقامی حکومتیں اپنے بین الاقوامی پارٹنرز اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے کوشش کر رہی ہیں کہ شادیوں کے لیے صحیح عمر تک انتظار کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ان کوششوں میں لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا بھی شامل ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی سی آر سی کی طرف سے 2017 میں کیے جانے والے جائزے کے مطابق ثانوی سکول کی تعلیم کے ہر سال کی تکمیل سے 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی جلد شادی کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ study](http://documents.worldbank.org/curated/en/530891498511398503/Economic-impacts-of-child-marriage-global-synthesis-report)

مذید جانیں

مختلف ممالک میں کم عمری کی شادیوں کے بارے میں مذید معلومات کے لیے متعلقہ حکومت یا غیر سرکاری تنظیموں سے رابطہ کریں۔ کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی کچھ بین الاقوامی تنظیمیں یہ ہیں:

بنگلہ دیش میں https://globalfundforchildren.org/story/girls-make-a-pact-against-child-marriage-in-bangladesh اور دیگر ترقی پزیر ممالک میں لڑکیوں کو تربیت فراہم کرنے والے کلب ہوم ورک میں مدد کرتے ہیں، زندگی کی مہارتیں سکھاتے ہیں اور جلد شادی کرنے کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ نائجر میں ’’پلان انٹرنیشنل‘‘ ایسے لڑکوں کے کلبوں کو سپانسر کر رہا ہے جو لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کے حصول کی حمایت کرتے ہیں اور گھریلو کاموں اور فیصلہ سازی میں بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔ افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں فعال کارکن ایسے کمیونٹی مباحثوں کا انعقاد کرتے ہیں جن میں کم عمری کی شادیوں کے تقصانات اجاگر کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے والدین، نوجوانوں اور مقامی اور مذہبی رہنماؤں کی رائے بھی معلوم کرتے ہیں۔

کچھ اقدامات میں ترغیب بھی شامل ہوتی ہے۔

ایتھوپیا کے دیہی علاقوں میں تحقیقی کام کرنے والی پاپولیشن کونسل نے ایتھوپیا کی وفاقی اور علاقائی حکومتوں اور دیگر اداروں کے اشتراک سے ’’برہانے ہیوان‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس میں ایسے والدین کو انعامات اور تحائف دیے جاتے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں شادی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور انہیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ (https://www.popcouncil.org/research/building-an-evidence-base-to-delay-marriage-in-sub-saharan-africa) ان انعامات میں بکریاں اور مرغیاں شامل ہوتی ہیں تاکہ والدین اپنی بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اضافی آمدن حاصل کر سکیں۔ یہ پروگرام 2004 میں شروع کیا گیا اور پھر اس کا سلسلہ برکینا فاسو اور تنزانیا تک پھیلا دیا گیا۔ یہ تنظیم سکول سپلائیز بھی فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں اس تنظیم نے مویشیوں کے بجائے سکول جانے والی لڑکیوں کو سولر پاور سے چلنے والی ایسی لالٹین فراہم کرنا شروع کر دی ہیں جنہیں موبائل فون چارج کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس اقدام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بجلی سے محروم علاقوں میں آمدن کے ذرائع مہیا ہو جاتے ہیں۔

تنظیم ’’پاپولیشن کونسل‘‘ کی ایتھوپیا کنٹری ڈائریکٹر اینابیل ایرلکر کہتی ہیں کہ ایسے اقدامات، جن میں لڑکیوں کے لیے اثاثے فراہم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے، کمیونٹیز کو یہ باور کرانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کہ وہ متبادل قدم اٹھاتے ہوئے اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں شادی کرنے سے اجتناب کریں اور انہیں سکول کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیں۔ اینابیل ایرلکر ’’برہانے ہیوان‘‘ منصوبوں کی تشکیل میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

ایرلکر بنیادی طور پر سوشل سائنس کی ماہر ہیں اور وہ سب سہارا افریقہ میں وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مخصوص برادریوں یا کمیونٹیز کی ضروریات اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملیاں تیار کی جانی چاہئیں۔ وہ اس سلسلے میں مقامی سطح پر مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں تاکہ اس حوالے سے ابھرنے والے مسائل خود برادریوں کی طرف سے سامنے آئیں اور ان کا حل بھی برادری کی سطح پر ہی فراہم ہو۔

 اس تصویر میں ایک کونسلر فرش پر بیٹھ کر ایک جوڑے سے بات کر رہی ہیں

فائل ۔ بھارت کے شہر راجگڑھ میں 12 مئی، 2005 کو ہونے والی شادی کے بعد ایک خاتون اور بچوں کی بہبود کے محکمے کی کونسلر (بائیں جانب) دولہا کو مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ اپنی کم عمر دلہن کے ساتھ اس وقت تک نہ رہے جب تک کہ وہ 18 برس کی نہ ہو جائے۔(AP )

آئی سی آر ڈبلیو نے بھارت کے شمالی علاقوں اور دیہی آبادی پر مشتمل ریاست ہریانہ میں ’’اپنی بیٹی اپنا دھن‘‘ کے نام سے ایک خصوصی پروگرام تشکیل دیا ہے۔ (https://www.icrw.org/press-releases/new-study- shows-that-cash-incentives-are-not-enough-to-tackle-child-marriage/)

ریاست ہریانہ کی حکومت نے 1994 سے 1998 کے دوران کسی بھی گھرانے میں ایک بچی کی پیدائش پر 25,000 روپے کے سیونگز بانڈ کی پیشکش کی بشرطیکہ یہ بانڈ بچی کے 18 برس کی عمر تک غیر شادی شدہ رہنے کی صورت میں ہی کیش کرایا جائے۔ یہ اقدام اس امید میں اٹھایا گیا کہ وہ لڑکی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکے گی اور اس کے ساتھ ساتھ بچی کو خاندان کے لیے مالی بوجھ تصور نہ کیا جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے۔

آئی سی آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ 2012 میں 18 برس کی عمر کو پہنچنے والی جن لڑکیوں نے اس پروگرام میں شمولیت اختیار کی، ان کے دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم اس سے آگے اس پروگرام کے کوئی اثرات نہیں تھے۔ لڑکیوں نے 18 برس کی عمر تک پہنچنے کے فوراً بعد ہی شادی کر لی اور یوں سیونگز بانڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنی شادی یا جہیز کے لیے استعمال کیا۔ آئی سی آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ جو لڑکیاں زیادہ عرصے تک سکول میں رہتی ہیں ان کی شادیاں نسبتاً آسانی سے ہو جاتی ہیں۔

بھارت میں مجموعی طور پر کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے سلسلے میں حکمتِ عملی کامیاب نظر آتی ہے۔ یونیسف کے مطابق بھارت میں کم عمر دلہنوں کا تناسب ایک دہائی قبل کے 47 فیصد سے کم ہو کر گذشتہ برس 27 فیصد پر آ گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس تناسب میں کمی کی وجہ بہتر عوامی شعور تھا۔ اس کے علاوہ 2006 میں ہونے والی قانون سازی کے تحت شادی کے لیے کم از کم قانونی عمر لڑکیوں کے لیے 14 سال سے بڑھا کر 18 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سے بڑھا کر 21 سال کر دی گئی تھی۔

فریڈی ریس کی فوٹو (اگلی صف میں بائیں طرف) ایک میگافون اُٹھائے ساحل سمندر پر شادی کے گاؤن پہنے فعال کارکنوں کی قیادت کر رہے ہیں۔

غیر منافع بخش تنظیم ’’بالآخر زنجیروں سے آزاد‘‘ کے بانی فریڈی ریس (اگلی صف میں بائیں جانب) اور ان کے حامی امریکہ کی ریاستون ڈیلاویئر اور نیو جرسی میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف پہلی بار قانون پاس ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ (وی او اے نیوز کے لیے یہ فوٹو کیرولن پرسوٹی نے کھینچی)

فعال ہونے سے کم عمری کی شادیوں کو روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ٹامسن ایک نوجوان ملاوی خاتون میموری باندہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہوں نے اس وقت کم عمری کی شادیوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا جب ان کی بہن 11 برس کی عمر میں جنسی ترغیب کے کیمپ میں حاملہ ہو گئی اور پھر اسے شادی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ میموری نے مدد کے لیے دوسری لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا تاکہ قبائلی عمائدین کو جنسی ترغیب سے اجتناب کرنے پر قائل کیا جا سکے۔ (https://www.youtube.com/watch?v=5p6cbRuvUro) وہ اوسلو فریڈم فورم پر اس بارے میں تفصیلات بیان کر رہی ہیں۔

’’گرلز ایمپاورمنٹ نیٹ ورک آف ملاوی‘‘ اور ’’لٹ گرلز لیڈ‘‘ یعنی ’’لڑکیوں کو قیادت کرنے دو‘‘ کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے پارلیمان کو اس بات پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ وہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے 18 برس سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائے۔ یہ اقدام 2017 میں مکمل کر کے نافذ کر دیا گیا۔

ٹامسن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ آئی سی آر ڈبلیو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آپ کسی بھی مرحلے پرانفرادی یا تنظیم کی سطح پر اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں تو آپ ایسی شادیوں کو مناسب عمر تک مؤخر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔