کم عمری کی شادیوں کے معاشی اثرات

ورلڈ بینک کے ایک کلیدی ماہر معاشیات کوئینٹن ووڈون کا کہنا ہے کہ کم عمر افراد کی شادیوں کے اثرات نہ صرف لڑکیوں اور ان کے خاندانوں پر بلکہ ان کے ملک پر بھی شدید ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کم عمری کی شادیوں کے لڑکیوں کے تحفظ اور سلامتی، ان کی بنیادی صحت، سکول جانے کی اہلیت اور اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے حق پر انتہائی منفی اثرات ہوتے ہیں۔ جہاں تک ملک پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے تو کم عمری کی شادیاں غربت میں کمی اور اقتصادی ترقی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔‘‘ ووڈون کتاب ’’کم عمری کی شادیوں کے معاشی اثرات‘‘ کے مصنفین میں سے ایک ہیں: (http://documents.worldbank.org/curated/en/530891498511398503/Economic-impacts-of-child-marriage-global-synthesis-report),” یہ ورلڈ بینک اور خواتین پر تحقیق کے بین الاقوامی مرکز (https://www.icrw.org/) کی 2017 کی مشترکہ سٹڈی ہے جس میں 25 ترقی پزیر ممالک کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چائلڈ میرج یعنی کم عمری کی شادیاں عمومی طور پر لڑکی کی تعلیم مکمل طور پر ختم کر دیتی ہیں، اس کی زندگی بھر کی کمانے کی صلاحیت محدود کر دیتی ہیں اور اسے صحت کے حوالے سے خطرات میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ جن لڑکیوں کی شادیاں بہت کم عمری میں ہو جاتی ہیں، ان کے بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور انہیں صحت کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مزکورہ تمام ممالک میں مجموعی طور پر 2030 تک کم عمری کی شادیوں میں کمی کا ہدف پورا کرنے میں ناکامی کی صورت میں ان کا مالی نقصان کھربوں ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے واشنگٹن ڈی سی میں ورلڈ بینک کے صدر دفتر میں ووڈون سے گفتگو کی۔ وہ ماہر معاشیات ہیں اور انہوں نے مذہبی علوم، ہیلتھ سائینسز اور ماحولیاتی سائینسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے تک غربت کے بارے میں تحقیق کی ہے اور اب ان کی تحقیق کا موضوع غربت کا تعلیم اور کم عمری کی شادیوں سے تعلق ہے۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو خاندانوں کیلئے موذوں متبادل کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئیے۔ ان کے مطابق بہترین راستہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے کو پرائمری تعلیم سے آگے بڑھایا جائے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک لڑکی کا ثانوی تعلیم کا ہر سال مکمل ہونے سے کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں کم سے کم 5 فیصد کی کمی واقع ہوتی ہے۔

ووڈون زور دے کر کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات زیادہ سے زیادہ کرنے چاہئیں جو کامیاب رہے ہوں۔ ان کوششوں کا مقصد اس مرحلے تک پہنچنا ہے جہاں خاندان بچوں کی شادیوں میں تاخیر کے فائدے پہچان پائیں اور اس پر عمل کر سکیں۔ ووڈون کہتے ہیں کہ ایسا رویہ اپنانے سے ’’شادی کی مارکیٹ کے محرکات تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘‘

انٹرویو کو وضاحت اور طوالت کے حوالے سے ایڈٹ کیا گیا ہے۔

{سوال} وی او اے: دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان کتنا وسیع ہے؟

ووڈون: علاقے کے لیحاظ سے صورت حال کی نوعیت مختلف ہے۔ جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھی گئی ہے۔ خاص طور پر بھارت میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ افریقہ میں اس رجحان میں کمی بہت سست روی کا شکار ہے۔ وہاں اب بھی ایک تہائی سے زیادہ لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہیں۔ لاطینی امریکا اور ویسٹ انڈیز میں کم عمری کی شادیوں میں کسی قدر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یوں عالمی سطح پر یہ مسئلہ بدستور سنگین ہے۔

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )

یہ اب بھی اس قدر سنگین مسئلہ کیوں ہے؟

18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی اکثر لڑکیاں ایسا اسلئے کرتی ہیں کہ ان کے پاس کوئی معقول متبادل نہیں ہوتا۔ بہترین متبادل یہی ہے کہ لڑکیوں کو سکول میں رہنے دیا جائے۔ تاہم یہ ہمیشہ ہی ممکن نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ سکول زیادہ دور ہوں، ان میں داخلہ زیادہ مہنگا ہو یا پھر ان کا تعلیمی معیار اچھا نہ ہو۔ ان صورتوں میں والدین کیلئے لڑکیوں اور لڑکوں کو سکول کی تعلیم جاری رکھنے کی خاطر مالی قربانیاں دیتے رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کیلئے بہترین کوششیں نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ایسا واقعی کرتے ہیں۔ تاہم اکثر ان کیلئے کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ یوں والدین اپنی بیٹیوں کی شادیاں کم عمری میں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنے کی کوشش یقنیاً کرتے ہیں۔

اس کے مالی اخراجات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

سب سے زیادہ خرچہ بچے پیدا کرنے کا ہوتا ہے۔ اگر شادی جلد ہو جاتی ہے تو وہ اپنی زندگی کے دوران زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے اثرات غربت کے تناسب اور فی کس مجموعی قومی پیداوار پر شدید ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں کھانے والے زیادہ ہوں تو فی کس تصرف میں کمی واقع ہو گی۔ آپ غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ دوسری سب سے بڑی قیمت آمدنی میں کمی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ شادی ہی لڑکیوں کو سکول سے اٹھا لینے کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن یہ یقیناً سب سے اہم وجہ ہے۔ بہت سے ممالک میں 20 فیصد سے 30 فیصد تک سکول کی تعلیم چھوڑ دینے والی لڑکیاں شادی کرنے یا حاملہ ہونے کے باعث ایسا کرتی ہیں۔ جب لڑکیوں کی تعلیم بہت کم ہوتی ہے تو ان میں دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں پیسہ کمانے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ پڑھی لکھی لڑکیوں جیسی ملازمتوں تک رسائی نہیں ہوتی کیونکہ ان میں اہلیت کی کمی ہوتی ہے۔

آپ عام لوگوں کو شادی میں تاخیر کرنے کے معاشی فوائد کیسے سمجھائیں گے؟

سوال یہ ہے کہ کیا وہاں معاشی فوائد کیلئے سازگار حالات موجود ہیں یا نہیں۔ ایسے ممالک میں جہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں ہوتی ہیں اور وہ بچے پیدا کرنے لگتی ہیں تو ان کیلیے ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے مواقع نہیں ہوتے اور یوں وہ اچھی ملازمت حاصل نہیں کر پاتیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سی مثالوں میں والدین اپنی لڑکی کو ممکن حد تک بہترین تعلیم دلوانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

آپ نے ذکر کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کیا وہاں اس حوصلہ افزا صورت حال کی وجوہات مختلف ہیں؟

متعدد ممالک میں گذشتہ 20 سالوں میں کم عمری کی شادیوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم نائجر کی حکومت کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں کمی کے طریقے جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ (https://www.unicef.org/niger/stories/ending-child-marriage-niger). مغربی افریقہ کے دو کروڑ آبادی والے ملک میں 76 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی آر سی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اگر یہ ملک کم عمری کی شادیوں پر قابو پا لیتا ہے تو اس کی آبادی 2030 تک 5 فیصد کم ہو سکتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں اس احساس کے ساتھ صورت حال تبدیل ہوئی ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے رجحان میں ڈرامائی حد تک کمی ممکن ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ کم عمری کی شادیوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اوران ملکوں میں اس کے فوائد بے شمار ہوں گے۔

اس سلسلے میں قوانین اور پالیسیوں کا کس حد تک عمل دخل ہو سکتا ہے؟

ترقی پزیر دنیا میں قوانین کا نفاذ مختلف وجوہ کی بنا پر ہمیشہ نہیں ہوتا۔ تقریباً دو تہائی شادیاں قانونی عمر سے پہلے ہی ہو جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کافی نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اقدامات بھی اہم ہیں۔

رمبک، جنوبی سوڈان کے لوریٹو سیکنڈری سکول کے باہر وقفے کے دوران لڑکیوں کی تصویر۔

رمبک، جنوبی سوڈان کے لوریٹو سیکنڈری سکول میں لڑکیاں وقفہ گذار رہی ہیں، 30 جولائی، 2017 ۔ یہ اس علاقے میں مکمل طور پر لڑکیوں کا واحد بورڈنگ سکول ہے جس میں لڑکیوں کے ولی کے لیے دستخط شدہ بیان داخل کرانا ضروری ہے کہ وہ انہیں گریجوئیشن تک سکول سے نہیں اٹھوائیں گے۔ (یہ تصویر مریا قیصاڈا نے اے پی پی کیلئے کھینچی)

آپ نے بتایا کہ سماجی رویوں کے حوالے سے صورت حال ایک مخصوص حد تک پہنچ چکی ہے۔ براہ مہربانی وضاحت کیجئیے۔

تصور کریں کہ آپ کے پاس کچھ رقم موجود ہے ۔۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کے سکول میں رہنے کیلئے یا ان کی فیس میں کمی کیلئے۔ آپ اس رقم کا کچھ حصہ ملک میں ہر جگہ فراہم کر سکتے ہیں یا پھر اسے کسی مخصوص علاقے میں خرچ کر سکتے ہیں جہاں کم عمری کی شادیوں کا تناسب زیادہ ہو۔ یہ اور بھی زیادہ اہم ہے جب آپ کے پاس ایسے علاقوں کو فراہم کرنے کیلئے محدود فنڈ موجود ہوں۔ بعض اقدامات میں مقامی سطح پر ایسی تبدیلی دیکھی گئی جہاں بہت سی لڑکیوں کیلئے سکول میں تعلیم جاری رکھنا ممکن ہو سکا۔ یوں رویوں میں تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے۔ پھر مقامی شادیوں کی مارکیٹ میں بھی تبدیلی ظاہر ہونے لگتی ہے اور لڑکیوں میں دیر سے شادی کرنے کا رجحان زور پکڑنے لگتا ہے کیونکہ عام رویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔

آپ کی تحقیق کے نتیجے میں کم عمری کی شادیوں کے بارے میں آپ کے خیالات میں کس انداز کی تبدیلی آئی؟

یہ کام شروع کرنے سے پہلے میں جانتا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینا ضروری ہے۔ لیکن یہ تمام ریسرچ پراجیکٹ اور اس کے نتائج نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کسی بھی ملک کیلئے اس چیز پر سرمایہ کاری کرنا بہترین عمل ہو گا۔