افغانستان

‘تم ہماری زر خرید ہو’

سمیہ 13 برس کی تھی اور ساتویں جماعت کی تعلیم مکمل کر رہی تھی ۔ اس وقت کے بارے میں وہ کہتی ہے، ’’میں نے اپنا بچپن کھو دیا‘‘۔ اس کے باپ امین اللہ نے 250,000 افغانی (3,300 ڈالر) لے کر اس کی شادی اپنے ایک رشتے دار کے بیٹے سے طے کر دی۔

لڑکی نے اپنے شوہر اور سسرال والوں سے التجا کی کہ اسے اپنی تعلیم مکمل کرنے دی جائے۔ لیکن اس کا کہنا ہے، ’’انہوں نے مجھے اجازت نہ دی۔‘‘ وہ اسے گالیاں دیتے اور مار پیٹ کرتے رہے۔ بالآخر کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد وہ طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب سمیہ اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔ اس نے وہاں ان کے ساتھ رہتے ہوئے ایک درزن کی حیثیت سے اپنا اطمنان اور اعتماد دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔

یوں اس مثال میں کم عمری کی شادی کا ایک اچھا نتیجہ برآمد ہوا۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی سے تعلیم، صحت اور لڑکیوں کی بھلائی اور ملکی معیشت کیلئے ان کی قدرومنزلت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

.

نمبروں کے حساب سے

افغانستان

35%9%
18 سال کی عمر تک شادی کرنے والی15 سال کی عمر تک شادی کرنے والی
علاقائی موازنہ18 سال کی عمر تک </br> شادی شدہ
بنگلہ دیش59%
نیپال40%
افغانستان35%
بھارت27%
بھوٹان26%
پاکستان21%
ایران17%
سری لنکا12%

یہ جاننے کیلئے ایک ملک کا انتخاب کریں کہ اس کا موازنہ علاقے سے کیسے کیا جا سکتا ہے

افغانستان میں قانونی طور پر شادی کیلئے کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ یونیسف ایسی شادی کو کم عمری کی شادی قرار دیتی ہے جس میں کوئی بھی فریق 18 سال سے کم عمر کا ہو۔ افغانستان کی مرکزی حکومت نے 2017 میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف ایک عملی منصوبے کا آغاز کیا۔ افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کے کمشن (https://www.aihrc.org.af/home/) کی سربراہ ڈاکٹر سیمہ ثمر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو حصول تعلیم اور اقتصادی طور پر با اختیار بنانے سے کم عمری کی شادیوں کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے ای میل کے ذریعے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر ان کے کمشن کو کسی کم عمری کی شادی کے بارے میں شکایت موصول ہوتی ہے تو وہ حکام کے ذریعے مداخلت کر سکتا ہے۔

درایں اثنا، جان ہاپکنز بلومبرگ سکول برائے پبلک ہیلتھ کی گذشتہ سال کی تحقیقی رپورٹ (https://www.jhsph.edu/news/news-releases/2018/study-suggests-shifts-in-afghan-attitudes-towards-increased-education-and-delayed-marriage.html) سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں کم عمری کی شادیوں کی حمایت بامیان صوبے جیسے غربت زدہ دیہی علاقے میں بھی کم ہو رہی ہے۔ تحقیقی اہلکاروں نے افغانستان کے متعدد صوبوں سے تعلق رکھنے والے 12 سے 15 سال تک کی عمر کے 1,000 کے لگ بھگ بچوں اور تقریباً 500 والدین سے اس بارے میں بات کی۔ اس تعداد میں شامل تین چاتھائی بچے اب بھی سکول میں زیر تعلیم تھے اور غیر شادی شدہ تھے۔ اگرچہ والدین کی تین چوتھائی تعداد ناخواندہ تھی، 90 فیصد کی رائے تھی کہ ان کے بچوں کو اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنی چاہئیے۔ اس تحقیقی ٹیم کے سینئر رکن ڈاکٹر رابرٹ بلوم کے مطابق ان میں سے 40 فیصد کا کہنا تھا کہ بچوں کی شادی ثانوی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ہونی چاہئیے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ان خیالات سے رویے میں واضح تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہ ایک ہی نسل کے دوران اس ملک میں سمندر جیسی گہری تبدیلی ہے۔‘‘

ٹرانسکرپٹ:

میں سمیہ ہوں اور میرے والد کا نام امین اللہ ہے۔ میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ لیکن میرے سالانہ امتحان سے صرف دس دن پہلے میری شادی کر دی گئی۔

میرے سسرال نے مجھے سکول کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی۔

میں نے اصرار کیا کہ میں سکول واپس جانا چاہتی ہوں۔ لیکن میرے سسرال والوں نے کہا، ’’اگر تم سکول چلی گئیں تو گھر کا کام کاج کون کرے گا؟‘‘

انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ہم نے تمہیں خریدا ہے، اور ہم تمہیں اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

میں جب بھی سکول جانے کی خواہش کا اظہار کرتی، میرے سسرال والے اور شوہر مجھے مارتے پیٹتے اور کہتے، ’’تم سکول نہیں جا سکتیں۔‘‘

میرا شوہر کم عمر اور ناپختہ تھا، اور اس کے ماں باپ اس کی حوصلہ افزائی کرتے کہ وہ مجھے مارے پیٹے اور گالیاں دے۔ لیکن میں نے اپنے ماں باپ یا کسی اور سے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ میں بس گذارا کرتی رہی۔

میرے سسرال والے ناخواندہ ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر تم سکول جاتی ہو تو گھر کا کام کاج کون کرے گا؟‘‘

اس چھوٹے اور خراب حالت والے گھر میں 15 افراد رہتے ہیں۔

میرے سسرال والوں نے میرے گھر والوں کو جہیز کے نام پر 3,300 ڈالر (250,000 افغانی) دیے۔

لیکن خدا شاہد ہے، اس کے جواب میں میرے باپ نے تقریباً 4,000 ڈالر (300,000 افغانی) کی چیزیں ان کے گھر کیلئے دیں۔

اس نے مجھے سونے کے زیور، بستر اور کپڑے خرید کر دیے۔

میرے سسرال والوں نے مجھے ٹھوکریں ماریں، مارا پیٹا اور تھپڑ مارے، لیکن انہوں نے مجھ پر کوڑے نہیں برسائے کیونکہ اس طرح میرے جسم پر نشان پڑ جاتے۔

وہ ہر وقت مجھے ٹھوکریں مارتے، مار پیٹ کرتے اور تھپڑ مارتے، اور وہ میری بے عزتی کرتے اور مجھے گالیاں دیتے۔

میں نے اپنا بچپن کھو دیا۔ مجھے اپنا سکول بے حد پسند تھا اور میں وہاں جانا چاہتی تھی۔

لیکن وہ مجھے اس کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے۔

مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میرے شوہر نے ایک اور شادی کر لی ہے۔ مجھے طلاق نہیں چاہئیے۔

میں واپس جا کر ان کے ساتھ رہنے کیلئے تیار ہوں بشرطیکہ وہ مجھے رہنے کیلئے الگ جگہ، کپڑے اور دیگر چیزیں دیں تاکہ میرے پاس ان سے کم چیزیں نہ ہوں۔

 اس تصویر میں سمیہ دروازے کے پاس کھڑی ہے

سمیہ اس وقت صرف 13 برس کی تھی اور ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی جب اس کے باپ نے اسے اپنے ایک بدمزاج رشتہ دار کو 3,300 ڈالر میں فروخت کر دیا۔ (یہ تصویر وی او اے کیلئے خلیل نورزئی نے بنائی)

سمیہ اس وقت صرف 13 برس کی تھی اور ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی جب اس کے باپ نے اسے اپنے ایک بدمزاج رشتہ دار کو 3,300 ڈالر میں فروخت کر دیا۔ (یہ تصویر وی او اے کیلئے خلیل نورزئی نے بنائی)

 اس تصویر میں سمیہ سلائی کی مشین پر کپڑے سی رہی ہے

سمیہ کو فروری میں طلاق ہوئی اور وہ واپس ہیرات آگئی۔ اب اس کی عمر 15 برس ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر کے لیونگ روم میں کپڑے سیتی ہے۔

سمیہ کی تصویر

سکول سے 13 سال کی عمر میں نکلوا لیے جانے کے بعد سمیہ قرآن پڑھنا سیکھ رہی ہے، اور وہ ایک استانی بننے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس کی ماں پیچھے کھڑی ہے۔

LEFT: سمیہ کو فروری میں طلاق ہوئی اور وہ واپس ہیرات آگئی۔ اب اس کی عمر 15 برس ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر کے لیونگ روم میں کپڑے سیتی ہے۔ RIGHT: سکول سے 13 سال کی عمر میں نکلوا لیے جانے کے بعد سمیہ قرآن پڑھنا سیکھ رہی ہے، اور وہ ایک استانی بننے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس کی ماں پیچھے کھڑی ہے۔

15 سالہ سمیہ وی او اے کو انٹرویو دینے کے آٹھ ماہ بعد خوش و خرم ہے اور اس کے زخم بھر رہے ہیں۔ اس کے باپ کو اسے شادی پر مجبور کرنے کے جرم میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

آٹھ ماہ بعد

میرے باپ کو دو سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد وہ چار ماہ قبل جیل چلا گیا۔ مجھے اب طلاق ہو چکی ہے۔

میرا شوہر اور اس کے گھر والے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور میں اپنی زندگی جی رہی ہوں۔

میں اپنی ماں کے ساتھ مل کر کپڑے سیتی ہوں اور میرا بھائی ایک فیکٹری میں کم کرتا ہے۔

ہم اب گھر کا خرچہ چلا رہے ہیں۔ میرے باپ نے کبھی کام نہیں کیا۔

میری زندگی خاص طور پر اب اچھی ہے کیونکہ میرا باپ یہاں موجود نہیں ہے۔

میرا باپ ہم سے جھگڑا کیا کرتا تھا اور ہم کپڑے سی کر جو پیسے کماتے تھے وہ ہم سے چھین لیا کرتا تھا۔

ماضی میں مجھے بہت سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔

ہم کپڑے سی کر کمائے جانے والے پیسوں سے اپنے تمام خراجات پورے کر رہے ہیں۔

ہر لباس کی اجرت 100 سے 300 روپے تک ہوتی ہے۔

ہماری گلی میں پانچ چھ درزی موجود ہیں۔ لیکن ہم چونکہ غریب ہیں اور کپڑے سینے کیلئے زیادہ اجرت نہیں مانگتے۔ ہمارے پاس کافی گاہک موجود ہیں۔

میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ میں سکول جاؤں گی یا نہیں۔

میں قرآن پڑھنا سیکھ رہی ہوں۔

جب میں قرآن پڑھنا سیکھ لوں گی تو میرا ارادہ ہے کہ میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دوں۔

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )