تنزانیہ

‘میں نے پولیس افسروں کو فون کیا’

تنزانیہ کی طالبہ مواناہامیسی عبداللہ نے اپنی زندگی کا سب سے اہم سبق اپنی پرائمری سکول کی گریجوایشن کی تقریب کے دوران سیکھا جب وہ صرف 14 برس کی تھی۔ اس سکول کے اساتذہ میں سے ایک نے یہ جانتے ہوئے کہ بہت سی طالبات نے شادی کے لیے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر سکول کو خیرباد کہ دیا، ایک ایمرجنسی فون نمبر شیئر کیا جس پر سکول کی کوئی بھی لڑکی شادی کے لیے مجبور کیے جانے پر شکایت درج کرا سکتی تھی۔ تنزانیہ کے انتہائی جنوبی علاقے لنڈی کے ساحلی قصبے کیلوا کے ایک قریبی گاؤں میں رہنے والی مواناہامیسی کی عمر اب 15 برس ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت اس نے وہ فون نمر نوٹ کر لیا اور گھر چلی آئی۔ اس نے وہ نمبر محفوظ لر لیا۔

اس دن جب اس کی ماں نے اسے بتایا کہ اس کی شادی ایک اجنبی شخص سے ہونے والی ہے تو مواناہامیسی نے بتایا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ روتی رہی۔ اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ لیکن اس کی ماں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا اور کہا کہ جس شخص سے اس کی شادی ہو رہی ہے وہ نوجوان ہے اور اچھا آدمی ہے۔

اس نے کہا کہ اس نے فوراً پولیس والوں کو بلا لیا۔ مواناہامیسی بتاتی ہے کہ پولیس نے اسے کہا کہ وہ اس شخص کا نام اور شادی کی تاریخ کے بارے میں بتائے۔ اس نے اپنی ماں سے اس بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں اور پولیس والوں کو دے دیں۔ پولیس نے ایک مقامی اہلکار کو اس کی خبر کی۔ وہ اہلکار شادی کے دن اس کے گھر آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت تک اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اس شخص کی تین بیویاں پہلے سے موجود ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ جب اس نے اہلکار کو بتایا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس نے شادی رکوا دی۔

بعد میں ضلع کے ایک سماجی کارکن نے اسے دارالسلام کے کی ایک پناہ گاہ میں منتقل کرا دیا جو اس کے گھر سے 325 کلومیٹر (200 میل) شمال میں واقع ہے۔

 مواہانامیسی عبداللہ، وسط میں، چار دیگر لڑکیوں کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھی ہے.

مواہانامیسی عبداللہ، وسط میں، شادی کے خطرے سے دوچار دیگر لڑکیوں کے ساتھ۔ 15 سالہ کم عمری کی شادی سے بچ کر کاؤنسلر کی مشاورت حاصل کی۔ (یہ فوٹو فراجا فلبرٹ ڈوگیجے نے وائس آف امریکہ کے لیے کھینچی۔)

سب سہارا افریقہ میں کم عمر لڑکیوں کی شادیاں

مواہانامیسی نے سب سہارا افریقہ کی دیگر بہت سی لڑکیوں کے برخلاف ایک ایسی شادی سے پیچھا چھڑایا جو وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں کا علاقہ ہے جہاں ہر سال 30 لاکھ لڑکیاں18 سال سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں کم عمر کے دولہے بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں یا تو روایت کی وجہ سے ہوتی ہیں یا پھر اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی متبادل امکانات موجود نہیں ہوتے۔ ایسی لڑکیاں جنہیں کم عمری میں شادی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہ غربت زدہ دیہی علاقوں میں رہتی ہیں جہاں رسمی تعلیم تک ان کی رسائی محدود ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک کے نومبر 2018 میں مرتب کیے جانے والے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سہارا افریقہ میں ہر 10 میں سے 7 لڑکیاں پرائمری سکول پاس کر لیتی ہیں تاہم ہر 10 میں سے 4 لڑکیاں ہی ہائی سکول پاس کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ ہائی سکول پاس کرنے والی لڑکیوں میں ملازمت کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور وہ ناخواندہ لڑکیوں کی نسبت دوگنا کما سکتی ہیں۔

ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق افریقہ کے درجن بھر ممالک کی آبادی کا نصف کم عمری میں شادی کرنے والے افراد پر مشتمل ہے اور کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں یہ لڑکیاں اپنی تمام تر شادی شدی زندگی میں کمائی کرنے سے محروم رہتی ہیں۔ یوں ان ملکوں کو مجموعی طور پر 63 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کم عمری کی شادیوں کا تناسب مغربی اور وسطی افریقہ میں سب سے زیادہ ہے جہاں یونیسف کے اعدادوشمار کے مطابق ہر 10 میں سے 4 لڑکیاں بہت کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ ترقی اور انسانی بھلائی کی تنظیم ’پلان انٹرنیشنل نائجر‘ کے پروگرام منیجر مصطفےٰ ابراہیم کا کہنا ہے، ’’بہت سی ایسی روایات ہیں جن کی وجہ سے خاندان اپنی بیٹیوں کی جلد شادی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر غریب اور روایتی ثقافت سے جڑے خاندان شادی کا پیام بھیجنے والوں کی طرف سے کیش یا مویشیوں کے تحفے پا کر خوش ہوتے ہیں، لڑکی کی قدروقیمت گھر داری اور بچے پالنے سے ظاہر ہوتی ہے۔

ابراہیم کہتے ہیں، ’’بڑا خاندان مضبوط اور طاقتور تصور کیا جاتا ہے اور وسیع خاندان کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ رجحان اب خاص طور شہری علاقوں میں تبدیل ہو رہا ہے۔

گلوبل کولیشن کی افریقہ اینگیجمنٹ افسر مونڈیا سیٹمبیکو کا کہنا ہے کہ 2014 میں شروع ہونے والی افریقی یونین ’’کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کی تحریک‘ نے ’’پورے براعظم میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔‘‘

اس تحریک نے نائجر اور تنزانیہ سمیت 30 ایسے ملکوں میں کام کیا ہے جن میں کم عمری کی شادیوں کا تناسب زیادہ ہے۔ یہ وہاں لوگوں کو سمجھا رہی ہے کہ شادی میں تاخیر کرنے سے ذاتی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تحریک انسانی حقوق کے تحفظ، عوام میں شعور پیدا کرنے اور اس بارے میں ایک سماجی تحریک شروع کرنے کے لیے قانونی اور پالیسی سے متعلق اقدامات کی حمایت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ستمبیکو کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے مذہبی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ مذہبی اجتماعات میں اس بارے میں آواز بلند کریں۔

وہ کہتی ہیں، ’’یہی وہ لوگ ہیں جو سماجی رویوں میں تبدیلی کا ایجنڈا آگے لے کر چل سکتے ہیں اور لڑکی کی قدرو قیمت سے لوگوں کو آگاہ کر سکتے ہیں۔‘‘

https://www.urduvoa.com/a/child-bride-tanzania-underage-marriage-forced-/5069522.html

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )