بنگلہ دیش

اگر میں پڑھی لکھی ہوتی تو میرا شوہر مجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔

ماہی بچپن سے ہی اداکارہ بننے کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ لیکن گیارہ سال کی عمر میں اس کی سخت مخالفت کے باوجود اس کی شادی ایک ایسے مرد کے ساتھ کر دی گئی جسے وہ پہلے کبھی ملی نہ تھی۔ شادی کے چھ ماہ بعد اس نے قرض حاصل کرنے کیلئے درخواست دی تاکہ اس کا شوہر کاروبار شروع کر سکے۔۔۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے شوہر کا یہ منصوبہ اسے چھوڑنے کا ایک بہانہ تھا۔ اب اسے طلاق ہو چکی ہے۔ اسے افسوس ہے کہ وہ اپنے سکول کی تعلیم مکمل نہ کر سکی۔ وہ سوچتی ہے کہ اب وہ اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرے گی۔ وہ کہتی ہے، ’’کیا کبھی میرے خواب پورے ہوں گے؟

’’ٹرانسکرپٹ‘‘

میرا نام ماہی ہے۔ جب میں گیارہ برس کی تھی تو میرے والدین نے میری شادی کیلئے ایک مرد کو چن لیا۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کیا وہ کوئی اچھا آدمی ہے یا برا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے پاس کافی دولت ہے۔

جب میرے والدین اور گھر کے بڑوں نے شادی کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے اپنی ماں سے التجا کی، ’’میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں شادی کرنا نہیں چاہتی۔ میں نے اپنی بہن اور اس کے شوہر سے بھی یہی کچھ کہا۔

لیکن انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ہم غریب لوگ ہیں۔ کم از کم تم اب شادی کر سکتی ہو۔ اگر تم نے پڑھائی جاری رکھی تو کیا تم کوئی ملازمت حاصل کر پاؤ گی؟ تم اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرو گی؟‘‘

لہذا انہوں نے کہا، ’’شادی کرو، اپنی فیملی بناؤ اور اپنے شوہر کے ساتھ رہو۔‘‘

اگرچہ میں نے سب کو اپنے اعتراضات بتائے، پھر بھی مجھے اس شخص کے ساتھ شادی کرنی پڑی۔ بالآخر مجھے شادی کیلئے راضی ہونا پڑا۔

میں نے اپنے شوہر کو شادی کے بعد دیکھا۔ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

شادی کے پانچ یا چھ ماہ بعد میرے شوہر نے مجھ سے کہا، ’’ماہی، میں چائے کی دکان کھولنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے 20,000 ٹاکا دلواؤ۔‘‘

میں نے سوچا کہ وہ میرا شوہر ہے۔ میں کیسے اس پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔

مجھے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ٹی سٹال اس کا اصل مقصد نہیں تھا۔ اس کا اصل مقصد مجھے چھوڑ دینا تھا۔

میں نے اس کے کاروبار کیلئے 20,000 ٹاکا کے قرضے کے فارم پر دستخط کر دیے۔

اس نے کچھ ماہ بعد مجھے طلاق نامہ بھجوا دیا۔ مجھے امید تھی کہ وہ واپس آ جائے گا لیکن اس نے مجھے طلاق دے دی اور کسی دوسری لڑکی سے شادی کر لی۔

میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کروں گی؟

میں جہاں بھی جاؤں گی، چاہے یہ کوئی گارمنٹ فیکٹری ہو یا کوئی اور جگہ، میرا باس مجھ سے یہی کہے گا کہ میری جنسی خواہش پوری کرو۔

میں جب بھی رات کو کسی سڑک سے گذرتی ہوں، آوارہ لڑکے آوازیں کستے ہیں، ’’میرے ساتھ چلو، میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں 100 ٹاکا یا 200 ٹاکا دوں گا۔‘‘ میں کیا کر سکتی ہوں۔

اگر میں کسی گھر میں نوکرانی کے کام کیلئے بھی درخواست دیتی ہوں تو وہ کہیں گے کہ جاؤ، ہم کسی خوبصورت لڑکی کو نوکرانی نہیں رکھ سکتے۔

میں غریب ہوں۔ کیا غریب گھر میں پیدا ہونا کوئی جرم ہے؟ ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ کہیں بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب میں سوچتی ہوں کہ اگر میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی ہوتی تو مجھے دوسروں کے ہاتھوں اس قدر ہراساں نہ ہونا پڑتا۔ مجھے کوئی اچھی ملازمت مل جاتی۔ میں ان پڑھ ہوں۔ پڑھائی کو چھوڑئیے۔ میرے شوہر نے مجھ سے جھوٹ بولا اور مجھے چھوڑ دیا۔ اگر میں پڑھی لکھی ہوتی تو میرا شوہر مجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔

اگر میں نے سکول کی تعلیم مکمل کر لی ہوتی تو میرے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔

میرے والدین کی غلطی کی وجہ سے میری شادی ہوئی اور اس طرح میری زندگی تباہ ہو گئی۔

لہذا میں سب والدین سے یہ کہوں گی کہ اپنی بیٹیوں کی شادی کم عمری میں نہ کریں اور یوں ان کی زندگی تباہ نہ کریں۔

بچپن سے میں خواب دیکھتی آئی ہوں کہ میں کسی ڈرامے یا فلم کی ہروئن بنوں۔ کیا میرا خواب کبھی پورا ہو گا؟ کیا کوئی میرے خواب کو پورا کرنے میں میری مدد کرے گا؟

A version of this video originally appeared on Facebook.

عالمی نقطہ نظر

18 سال سے کم عمر کی خواتین کی شادیوں کا تناسب
10% 20% 30% 40% 50% 60%
نقشہ

ریاستہائے متحدہ

6.2

ہر ایک ہزار میں سے 15 سے 17 سال کی عمر میں بیاہے جانے والے بچوں کی تعداد

(That's about .6%
of 15- to 17-year-olds .)

’’چائلڈ میرج‘‘ کی اصطلاح رسمی شادیوں اور غیر رسمی بندھنوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں 18 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اس انداز میں اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے گویا وہ شادی شدہ ہوں۔ غیر رسمی بندھن میں اس جوڑے کی کوئی قانونی یا مذہبی تقریب یا رسم منعقد نہیں ہوئی ہوتی۔ ہمارا گرافک اقوام متحدہ کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اصل ذرائع قومی مردم شماری اور گھرانوں کے سروے ہیں جن میں کثیر جہتی نشاندہی کے کلسٹر سروے (MICS) اور ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے s (DHS) شامل ہیں جن میں پرکھ اور پیمائش کی غلطیاں ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چائلڈ میرج اور آبادی کے اعدادوشمار استعمال کیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ملک میں کتنی خواتین کی شادیاں 15 اور 18 برس کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سورس: ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس: نظر ثانی شدہ 2017، DVD ایڈیشن‘‘۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز، پاپولیشن ڈویژن (2017)

’’چائلڈ میرج ڈیٹا بیس۔‘‘ یونیسف (مارچ 2018 )