انجینئر فل زیمرمین نے نوے کے عشرے میں پی جی پی ایجاد کیا جس کے بعد سے اس میں بہت سی تبدیلیاں اور اضافے کئے گئے۔یہ ایک طاقتور کرپٹوگرافی پروگرام ہے۔
جب کوئی چیز اینکرپٹ ہوتی ہے تو وہ نارمل ٹیکسٹ سے خفیہ کوڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے جو آئیڈیلی طورپرالیکٹرونک کی مدد سے ہی پڑھا جا سکتا ہے۔کسی کوبھی اگر’خفیہ کی‘ کے بغیر کوئی اینکرپٹ میسج ملتا ہے تو وہ اسے صرف بے ربط یا کچرا ہی دکھائی دے گا اور وہ اس کا کوڈ کریک کرنے کی کوشش کرے گا۔’کی‘ جتنی پیچیدہ ہوگی، اسے کریک کرنا اتنا ہی مشکل ہوگا۔
پی جی پی سے ای میلز، ٹیکسٹ، ڈاکیومنٹس یہاں تک کہ کمپیوٹر کی میموری تک کو انتہائی طاقتور اینکرپٹ ترکیبوں کی مدد سے اینکرپٹ کیا جاسکتا ہے۔اگرکوئی چیز پی جی پی میں لپٹی ہو تو یوزر یہ اطمینان رکھ سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ممکنہ طورپر اس کے ڈیٹا کا کوڈ بریک کرکے اس کی سرگرمیوں کی جاسوسی نہیں کرسکتا ۔
پی جی پی کیسے کام کرتا ہے؟
پی جی پی جیسے طاقتورٹول اپنے اندر کچھ پیچیدگیاں اور کنفیوژن بھی رکھتے ہیں۔کچھ پی جی پی یوزر کے خیال میں اس میں پیچیدہ اینکرپٹ ایلگورتمس اوراسٹیپس سے کام لیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں پی جی پی کو استعمال کرنے کا طریقہ بہت بنیادی ہے۔
کسی ایک ’کی‘ کے بجائے پی جی پی میں بہت ساری الیکٹرونک کوڈ کیز ہوتی ہیں۔ ایک پبلک، ایک پرائیوٹ اور ایک صرف سیشن کے لئے۔
پی جی پی استعمال کرنے والا کوئی بھی یوزرپبلک کیز استعمال کرکے اپنے ڈاکیومنٹس کو اینکرپٹ کرسکتا ہے۔پرائیویٹ کی کے ذریعے صرف اینڈ یوزر ہی ڈیٹا کرسکتا ہے جواسے پبلک ’کی‘ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ اینکرپشن کے ہرایکشن کے لئے ایک مخصوص سیشن کی ہوتی ہے۔
یہ اس طرح کام کرتا ہے۔پی جی پی کے نئے یوز ر کو جو سب سے پہلا کام کرنا ہوتا ہے وہ پبلک اور پرائیوٹ کیز جینریٹ کرتا ہے جو الیکٹرونک تاروں کا ایک لمبا سلسلہ بنا دیتا ہے۔کیز کی لمبائی اینکرپشن پرمنحصر ہوتی ہے لیکن پبلک اور پرائیوٹ کیز میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔
پی جی پی یوزرز پبلک ’کی‘ کو جہاں چاہیں شیئر کرسکتے ہیں۔دوسرے پی جی پی یوزر کو اس کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب اسے آپ کو اینکرپٹ میسج یاڈاکیومنٹ بھیجنا ہو۔پرائیوٹ ’کی‘ کبھی بھی شیئر نہیں کی جاتی اور صرف مخصوص یوزر کے لئے ہی ہوتی ہے۔پرائیوٹ’ کی‘ کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر پرائیوٹ’ کی‘ کھو جاتی ہے تو کوئی بھی ڈاکیومنٹ جو اینکرپٹ ہو وہ ضائع ہوجاتی ہے۔
اگرکسی ای میل یا ڈاکیومنٹ کو اینکرپٹ کرنا ہو جو یوزر کو بھیجنا ہے اس کی’ پبلک کی‘ بھی آپ کے پاس ہوتو پھر یوزر پی جی پی پاس فریزاستعمال کرکے ٹیکسٹ کو اینکرپٹ کرسکتا ہے۔
جب یہ دوسرے یوزر کو موصول ہوتا ہے تو ڈیجیٹل گاربیج کی شکل میں ہوتا ہے لیکن یوزر ’پرائیوٹ کی‘ اور انفرادی پاس فریز کا استعمال کرکے اینکرپٹ مسیج پڑھ سکتا ہے۔دوسری جانب بھی بالکل یہی طریقہ کار ہوتاہے۔یہ مسیج کو دو باکسز میں بند کرنے والا معاملہ جسے صرف بھیجنے اور وصول کرنے والا ہی پڑھ سکتا ہے۔
کیا کوئی بھی ڈیجیٹل کوڈنگ سسٹم ایسا ہے جسے توڑا نہ جاسکے، اس بارے میں بحث ہوتی آئی ہے لیکن اس بارے میں سب متفق ہیں کہ پی جی پی ایسا سسٹم ہے جو کمیونیکشن کو محفوظ بنانے کی تقریباًگارنٹی دیتا ہے۔پرائیویسی سیٹنگ کے اعلی درجے پر بھی پی جی پی کے اینکرپٹ ڈاکیومنٹ کو سپر کمپیوٹرز اور اعلیٰ تربیت یافتہ کوڈ بریکرز کی مدد کے بغیر کھولنا تقریبا ناممکن ہے اور کبھی کبھارتوان کی مدد سے بھی یہ ممکن نہیں ہوتا۔اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا ڈاکیومنٹ مکمل طورپر خفیہ رہے اور آپ کے بغیر کوئی دوسرا اسے نہ پڑھ سکے تو آپ پی جی پی پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔
ممکنہ خامیاں
پی جی پی اینکرپٹ ڈاکیومنٹ کی پرائیویسی کو تو برقرار رکھتا ہے لیکن وہ اس ڈاکیومنٹ کو بھیجنے اور وصول کرنے والوں کی شناخت کوخفیہ نہیں رکھتا۔یہ مکمل طورپراینکرپشن ٹول ہے۔پی جی پی استعمال کرنے کے باوجود بھی آپ کی آن لائن سرگرمیاں مکمل طورپر ظاہرہورہی ہوتی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ ٹول ہے۔تجربہ کاریوزرز کو بھی اینکرپٹنگ اورڈی کرپٹنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
باٹم لائن
اگرآپ اپنے ڈاکیومنٹ کو مکمل طورپر زارداری کے ساتھ بھیجنا یا محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے پی جی پی ایک بہترین ٹول ہے لیکن آپ سنسر پابندیوں سے بچ کر اوراپنی شناخت کو خفیہ رکھ کر بلاک ویب سائٹس اورڈیٹا تک رسائی چاہتے ہیں تو پی جی پی آپ کا مددگار نہیں۔