طالبان حکومت میں زندگی دو ادوار کی کہانی
August 16, 2023
اگست میں طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی دوسری سالگرہ ہے۔ لیکن یہ واحد دور نہیں جب طالبان نے اس جنگ زدہ ملک میں اقتدار پر کنٹرول حاصل کیا۔ 1996 سے 2001 تک، طالبان کے پہلے دور اقتدار میں افغانستان میں عوام نے زبردست مشکلات برداشت کیں، جن میں سے کئی مشکلات کا سامنا انہیں اب ایک بار پھر کرنا پڑا رہا ہے۔ وی او اے نے طالبان کی پچھلی حکومت اور ان کے موجودہ دور کے درمیان پانچ بڑے معاملات سفارت کاری اور شناخت، تشدد اور دہشت گردی، میڈیا اور مذہبی آزادی ، معیشت اور غیر ملکی امداد اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے موازنہ کیا ہے ۔
حصہ اول سفارتکاری اور عالمی قبولیت
2021 میں طالبان کا کابل پر قبضہ ،افغانستان پر دوسری بار شدت پسند گروپ کا اقتدار پر کنٹرول ہے۔ پہلی بار انہوں نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تھی۔ تب بھی اور اب بھی، طالبان افغانستان کو جسے وہ امارت اسلامیہ افغانستان، قرار دیتے ہیں، عالمی برادری سے سفارتی شناخت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
طالبان کا پہلا دور
طالبان نے قندھار میں اپنی کارروائیوں کا مرکز قائم کرنے کے بعد، پہلی بار ستمبر 1996 میں کابل پر قبضہ کیا تھا۔ لیکن وہ کبھی بھی پورے ملک پر قابض ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ملک کے شمالی علاقے طالبان مخالف جنگجوؤں کے اتحاد کے کنٹرول میں رہے۔ اس حکومت کو ، جسے باضابطہ طور پر اسلامی ریاست افغانستان کے نام سے جانا جاتا ہے، اقوام متحدہ اور زیادہ تر رکن ممالک نے 2001 میں طالبان کے خاتمے تک سرکاری طور پر تسلیم کر رکھا تھا ۔
مگر اس دور کی کچھ باتیں مختلف تھیں۔ ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی پہلی حکومت کو پاکستان نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔ پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز طالبان کے اہم سرپرستوں میں سے ایک تھیں اس کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی انہیں تسلیم کر رکھا تھا، لیکن 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات نے اپنی حمایت واپس لے لی۔ سعودی عرب نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا تھا لیکن اسامہ بن لادن کو ملک بدر کرنے سے انکار کی وجہ سے، جو اس وقت سعودی بادشاہت کا اعلانیہ دشمن تھا، 1998 میں اطالبان سے تعلقات معطل کر کے اپنے سفارت کار أفغانستان سے واپس بلا لیے تھے۔
دوسری جانب، طالبان نے علیحدگی پسند چیچن جمہوریہ اچکیریا کو تسلیم کیا، اور انہوں نے بھی جوابی طور پر طالبان کو تسلیم کیا تھا، لیکن روس نے ان کی بغاوت کچل دی تھی۔
دریں اثنا، ہمسایہ ملک ترکمانستان نے طالبان کو غیر سرکاری حمایت فراہم کی اور انسانی ہمدردی پر مبنی امداد کو مربوط کرنے میں مدد کی۔ طالبان قیادت نے عمومی طور پر بیرونی ملکوں کے غیر مسلم نمائندوں سے ملنے سے انکار کیا۔ نومبر 2000 میں پاکستان میں چین کے سفیر لو شولن ایسے پہلے شخص بنے، جن سے طالبان نے ملاقات کی۔
طالبان کا موجودہ دور
کئی حوالوں سے، طالبان کی اقتدار میں واپسی زیادہ کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے اگست 2021 میں کابل میں بلا مزاحمت داخل ہونے سے پہلے افغانستان کے تقریباً تمام 34 صوبوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
کئی حوالوں سے، طالبان کی اقتدار میں واپسی زیادہ کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے اگست 2021 میں کابل میں بلا مزاحمت داخل ہونے سے پہلے افغانستان کے تقریباً تمام 34 صوبوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
طالبان مخالف قومی مزاحمتی محاذ، یا این آر ایف، ستمبر 2021 میں [شمال مشرقی] صوبے پنجشیر پر طالبان کے قبضے کے ایک ماہ بعد تک اپنی گرفت جاری رکھنے میں کامیاب رہا، لیکن پھر یہاں طالبان کا قبضہ ہو گیا۔ اگرچہ سابق نائب صدر امر اللہ صالح نے خود کو عبوری صدر قرار دیا تھا، لیکن انہیں جلد ہی تاجکستان فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اگرچہ این آر ایف اور کئی دوسرے گروپ مسلح مزاحمت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ ابھی تک متحدہ محاذ بنانے یا خاطر خواہ غیر ملکی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
روس اور ایران نے طالبان کے 2021 کے حملے کی حمایت کی تھی، لیکن اس کے بعد سے نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ اگست 2023 تک، کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
لیکن بہت سے ملکوں نے غیر سرکاری طور پر سفارت خانے اور قونصل خانے طالبان حکام کے سپرد کر دیے ہیں اور طالبان کے مقرر کردہ سفارت کاروں کو قبول کر لیا ہے۔ مئی 2023 میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ افغانستان کم از کم 14 ممالک میں اپنے سفارت کار بھیج چکا ہے۔
اگرچہ طالبان حکومت کو دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے، لیکن دنیا کی زیادہ تر حکومتوں نے ملک کی فی الوقع (ڈی فیکٹو) حکومت کے طور پر ان کے ساتھ عملی رابطہ کاری اختیار کر لی ہے۔ یہ سفارت کاری کیسے آگے بڑھتی ہے اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوگا۔ ان عوامل میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان انسانی حقوق اور ایک جامع حکومت کی تشکیل کے اپنے وعدوں پر کیسے آگے بڑھتے ہیں۔
حصہ دوم تشدد اور دہشت گردی
1996 اور 2021 میں، طالبان نے پرتشدد شورش کے ذریعے کنٹرول سنبھالا، جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔ وہ متعدد جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب رہے ہیں، جب کہ اسلامی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ان کے تعلقات بدستور ایک بڑی بین الاقوامی تشویش کا باعث ہیں۔
طالبان کا پہلا دور
طالبان کی پہلی حکومت تقریباً 20 سال کی خانہ جنگی کے نتیجے میں برسراقتدار آئی تھی، جس نے اسلامی عسکریت پسند گروپوں کے اتحاد کو شکست دی تھی، جنہوں نے ملک کی سوویت حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ طالبان نے اپنی مہم کے دوران، شہریوں پر حملے کیے اور قیدیوں کو پھانسیاں دیں۔ سال 1995 میں، کم از کم 57 افراد اس وقت مارے گئے تھے جب [طالبان] نے شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے کابل کے رہائشی علاقوں پر گولہ باری کی تھی۔
ستمبر 1996 میں کابل پر قبضے کے بعد، طالبان نے شمالی علاقوں کو فتح کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، اور ان علاقوں میں، جن پر انہوں نے قبضہ کیا تھا، کئی بار قتل عام کیا۔ سینکڑوں شہری [بامیان] اور یکولنگ میں مارے گئے، جب کہ استالف اور دیگر قصبے تباہ ہوئے۔ افغانستان کے چوتھے بڑے شہر [مزار شریف] میں، طالبان نے 4000 کے قریب شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شیعہ ہزارہ اقلیت سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں 10 ایرانی سفارت کار اور ایک صحافی بھی شامل تھا، جس پر ایران نے جوابی فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گرد حملوں نے ، جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے،اور جن کی منصوبہ بندی اسامہ بن لادن نے افغانستان میں بیٹھ کرکی تھی، نیٹو کی قیادت میں اتحادی فوج کی مداخلت کو جواز فراہم کیا،جس کے بعد طالبان کو افغانستان کے بڑے شہروں سے پیچھے ہٹنا پڑا ۔
اپنی چار سال پر مبنی پہلی حکومت کے دوران، طالبان نے القاعدہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان جیسے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ اتحاد کیا، اور انہیں افغان سرزمین کو اپنی کارروائیوں کے لیے ایک مرکز کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اس کے بدلے میں، دہشت گرد گروپوں نے جنگجوؤں کے ساتھ تعاون کیا اور [فوجی کمانڈر] احمد شاہ مسعود جیسےطالبان کے مخالفین کو قتل کیا۔ لیکن ان شراکت داریوں کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ طالبان کی دشمنی بڑھی جو بالآخر طالبان کے زوال کا سبب بنی۔11 ستمبر 2001 کے حملوں نے، جنہیں اسامہ بن لادن نے افغان سرزمین سے ترتیب دیا تھا، اور جن میں 3000 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے، نیٹو کی قیادت میں فوجی مداخلت کا جواز فراہم کیا، جس کے نتیجے میں طالبان کو تمام بڑے شہروں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔
انہیں بے دخل کیے جانےکے بعد، امریکہ نے طالبان کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دیا اور طالبان رہنماؤں پر انفرادی طور پر پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن امریکہ نے اس گروپ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی باضابطہ فہرست میں شامل نہیں کیا۔
طالبان کا موجودہ دور
اپنی 20 سالہ شورش کے دوران، طالبان اور دیگر حکومت مخالف عناصر افغانستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے ہونے والی [زیادہ تر] شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں ۔ 2021 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ، جب انہوں نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کیں، تقریباً 700 شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔
اپنے زیر قبضہ علاقوں میں لوٹ مار کرنے اور گھروں کو تباہ کرنے کے علاوہ، طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور ایسے مقامی افراد کو بھی ہلاک کر دیا، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ طالبان نے سابق سرکاری اور پولیس اہلکاروں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا تھا، طالبان کے قبضے کے ابتدائی چند ماہ میں ایک سو سے زائد افراد کو ہلاک یا لاپتہ کیا گیا۔ شیعہ ہزارہ اقلیتی گروہ کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا، مالستان ضلعے میں نو افراد کو جولائی 2021 میں تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا۔ طالبان جنگجو ایران اور ہمسایہ ملک تاجکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔
کینیڈا، جاپان، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔ 2020 میں امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانے بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم اگست 2022 کو کابل میں ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الزواہری کی ہلاکت سے طالبان کے امریکہ سے کئے گئے معاہدے کی پاسداری کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔ طالبان عہدیداروں کا موقف ہے کہ وہ کابل میں الزواہری کی موجودگی سے آگاہ نہیں تھے ۔ چین نے بھی افغانستان میں سرگرم جنگجو گروپوں میں ایغور جنگجووں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
اسی دوران، طالبان نے داعش کی مقامی شاخ، دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف ، جنہیں وہ اپنا حریف خیال کرتے ہیں، انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں
حصہ سوم میڈیا اور مذہبی آزادی
طالبان اسلام کی بےحد سخت گیر شکل کی پیروی کرتے ہیں، جس میں کسی قسم کے میڈیا، موسیقی اور فوٹوگرافی جیسے فنون کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن ان پابندیوں کی حدود گزشتہ کچھ عرصے میں کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہیں ، جو دنیا اور افغان معاشرے میں پچھلے کچھ عرصے میں آنے والی تبدیلیوں کی غمازی کرتی ہیں۔
طالبان کا پچھلا دور
طالبان کے پچھلے دور سے بھی پہلے سالہا سال کی آمرانہ حکومت کے دور میں افغانستان میں صرف ایک سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن موجود تھا، جس میں صحافتی آزادی کی روایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ صورتحال خانہ جنگی کے دوران اور بھی خراب ہو گئی، کیونکہ ملک کابڑا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا، اور ذہین اور ہنر مند لوگ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے ریڈیو کے سوا ہر قسم کے میڈیا پر پابندی عائد کر دی۔ ریڈیو کا نام شریعہ ریڈیو رکھ دیا گیا، اور اس کو مذہبی اعلانات اور سرکاری حکم نامے عوام تک پہنچانے تک محدود کر دیا گیا۔
موسیقی پر سختی سے پابندی تھی۔ موسیقی کے آلات توڑ پھوڑ دیئے گئے تھے، جبکہ آڈیو اور وی ایچ ایس ویڈیو کیسٹس قبضے میں لے کر ان کے فیتے توڑ دیئے گئے۔ ملک کے قومی ریڈیو اسٹیشن کی بعض ریکارڈنگز ضائع کر دی گئی تھیں، لیکن ریڈیو کے عملے نے بعض اہم ریکارڈنگز کو ایک خفیہ مقام پر محفوظ کر لیا تھا ۔ طالبان نے ٹی وی براڈ کاسٹنگ کا سازو سامان اور نجی گھروں میں موجود ٹی وی سیٹس تباہ کر دیئے لیکن ایک ٹی وی اسٹیشن نے جو طالبان کے کنٹرول والے علاقے سے کام نہیں کر رہا تھا، اپنا کام جاری رکھا۔
انٹرنیٹ کے استعمال پر سرکاری طور پر پابندی تھی، باجود اس کے کہ جنگ زدہ افغانستان میں انٹرنیٹ تک رسائی ویسے ہی نہ ہونے کے برابر تھی۔ طالبان کے بنیاد پرست نظریے کے مطابق انسانوں یا جانوروں کی تصویرکشی ممنوع تھی۔ ایک درجن یا اس سے کچھ زیادہ اخبار تصاویر کے بغیر چھاپے جا رہے تھے۔ طالبان قیادت شاذ و نادر ہی میڈیا میں دکھائی دیتی تھی ۔ طالبان رہنما نہ تو پریس کانفرنس کرتے تھے اور نہ ہی پالیسی بیان جاری کرتے تھے ۔
طالبان کی اولین حکومت عالمی سطح پر اپنی مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے لئے جانی جاتی تھی۔ شیعہ ہزارہ اقلیتی آبادی کے بڑے پیمانے پر قتل کے ساتھ ساتھ، طالبان نے غیر مسلموں کا کسی ایسی عمارت میں قیام کرنا ممنوع قرار دے رکھا تھا، جہاں مسلمان رہتے ہوں، غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور ان پر لازم تھا کہ وہ عوامی مقامات پر اپنی شناخت کے لئے مخصوص بیج پہن کر رکھیں۔ طالبان کی جانب سے چھٹی صدی عیسوی میں قائم کئے گئے بدھا کے دو بڑے مجسمے گرانے کی کارروائی نے دنیا کو صدمے اورتعجب میں مبتلا کر دیا تھا ۔ اس کارروائی کی پاکستان نےبھی مذمت کی تھی، جسے اس وقت طالبان کا حامی سمجھا جاتا تھا۔
طالبان کا موجودہ دور
اگست 2021 میں طالبان کے کابل کا دوبارہ کنٹرول سنبھالنے تک افغانستان میں میڈیا ترقی کر چکا تھا ۔ ملک میں 600 سے زائد میڈیا ادارے کام کر رہے تھے۔ 1990 کی دہائی کے مقابلے میں ٹیلی ویژن ترقی کر چکا تھا۔ طالبان نے ٹی وی چینلز کو نہ صرف کام جاری رکھنے دیا ہے، بلکہ طالبان عہدیداروں نے ٹیلی ویژن پر انٹرویوز بھی دیئے ہیں۔
لیکن موسیقی اور تفریحی پروگراموں پر ، جن میں غیر ملکی فلمیں یا اسلام پر تنقیدی مواد شامل ہو، اب بھی پابندی ہے ۔ جبکہ احتجاجی مظاہروں اور سیکیورٹی معاملات پر نیوز کوریج کو سخت سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گوکہ طالبان کا دعوی ہے کہ جب سے انہوں نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے، کسی صحافی کو ہلاک نہیں کیا گیا، افغانستان کے جرنلسٹ سینٹر نے ایسے ایک سو تیس کیسز کا اندراج کیا ہے، جس میں صحافیوں کو طالبان کے پہلے سال میں یکطرفہ کارروائی کے نتیجے میں حراست کا سامنا کرنا پڑا، یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹرز ود آوٹ بارڈز کے مطابق، طالبان کے اقتدار میں آنے کے اولین مہینوں میں افغانستان میں میڈیا کے نصف کے قریب ادارے بند ہو چکے ہیں، جبکہ 50 فیصد کے قریب مرد صحافی اور 80فیصد کے قریب خواتین صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔
سب سے مشکل حالات کا سامنا افغانستان کی خواتین صحافیوں کو کرنا پڑ رہا ہے، جن کے لیے اب کیمرے کے سامنے آنے کے لئے چہرہ ڈھانپنا لازمی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے میڈیا کے لئے کام جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے مطابق، افغانستان کے نصف سے زائد میڈیا ادارے طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے ابتدائی چند ماہ میں بند ہو چکے ہیں، جبکہ مرد صحافیوں کی نصف تعداد اور خواتین صحافیوں کی 80 فیصد تعداد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ طالبان کے آنے کے بعد سے افغانستان آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں سال 2022 کے دوران 180 میں سے 122ویں اور 2023میں 152 ویں نمبر یعنی تیس پوائینٹس نیچے کی طرف تنزلی کا سفر طے کر چکا ہے۔
بیس سال تک افغانستان میں موجود حکومتی بندوبست کے خلاف مزاحمت کے دوران طالبان نے انٹرنیٹ کو قبول کر لیا ہے اور پراپیگنڈا مقاصد کے لئے سوشل میڈیا بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔لیکن 1990 کی دہائی کے مکمل میڈیا بین کے بر عکس 2021 میں طالبان کی کابل پر کنٹرول سنبھالنے کی کارروائی میں ٹویٹس، سیلفیز، اور لائیو سٹریمز بھی شامل تھیں۔ طالبان نے افغانستان میں انٹرنیٹ رسائی بہتر بنانے کی بھی کوشش کی ، لیکن وہ گاہے گاہے انٹرنیٹ بند کرنے کے اقدامات کر کے اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
افغانستان کا گزشتہ آئین ، جو آزادی صحافت اور مذہبی آزادی کی اجازت دیتا تھا، معطل کر دیا گیا ہے ۔ گو کہ ملک کی بیشتر اقلیتی آبادی طالبان کے کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک چھوڑ کر فرار ہو چکی ہے، طالبان کی جانب سے ان کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود بعض کمیونٹیز، جن میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی شامل ہے، نسلی تشدد کے واقعات کا نشانہ بن چکی ہیں۔ اسلام چھوڑ کر احمدی، بہائی اور عیسائی مذہب اختیار کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی سختی سے ممانعت ہے ۔
چوتھا حصہ معیشت اور غیر ملکی امداد
قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور جغرافیائی طور پر اہم تجارتی راستوں میں سے ایک پر موجود ہونے کے باوجود افغانستان ایک طویل عرصے سے دنیا کے سب سے پسماندہ ملکوں میں سے ایک ملک رہا ہے ۔ وہ اپنے خطے میں واحد ملک ہے، جو اقوام متحدہ کی دنیا کے انتہائی کم ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔
ملک کی دو تہائی آبادی زرعی شعبے میں کام کرتی ہے ۔ کاشتکاری سے زیادہ تر لوگوں کی بنیادی ضروریا ت ہی پوری ہو پاتی ہیں، جس کی وجہ سے سخت قحط کی صورت میں، جس کا اس خطے کو مختلف اوقات میں سامنا رہا ہے، انہیں خاص طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازعات نے ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے، جبکہ بد عنوان اور غیر مستحکم حکومتوں نے نئی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول نہیں بننے دیا ، جس کی وجہ سے ملک کی بیشتر آبادی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
طالبان کا پچھلا دور
طالبان کو اپنے پچھلے دور حکومت میں ایک ٹوٹی پھوٹی معیشت ورثے میں ملی تھی۔ طالبان سے پہلے کی کمیونسٹ نواز حکومت میں افغانستان کی سرکاری ملکیت میں کام کرنے والی صنعتیں سوویت یونین سے ملنے والی امداد پر انحصار کرتی تھیں۔ 1991 میں کمیونسٹ نواز حکومت کے ختم ہونے سے افغانستان معاشی طور پر بالکل کمزور ہو گیا تھا ۔ بعد کی خانہ جنگی کے دوران ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 25 فیصد سالانہ کی کمی ہوئی، جو 1996 میں کم ہو کر صرف 3.1 ارب ڈالر تک محدود ہو گئی۔
جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا، اس وقت افغانستان میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ تھی، ہر 1000 پیدا ہونے والے بچوں میں 100 بچے مر جاتے تھے، جبکہ تقریبا ہر6 میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ تک زندہ نہیں رہتا تھا۔ طالبان کے پچھلے دور میں معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی۔ 1999 میں طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی حوالگی سے انکار کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں اورخطے کی تاریخ کے بد ترین قحط نے ملک کی معاشی صورتحال مزید بد تر کر دی اور ایک انسانی بحران پیدا ہوگیا۔
عالمی امدادی اداروں کے لئے بڑے پیمانے پر بڑھتے تشدد اور طالبان کے نافذ کردہ سخت گیر قوانین کی وجہ سے افغانستان میں کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا ۔ طالبان کے اس پورے دور میں افغانستان کو سالانہ 200ملین ڈالر سے بھی کم کی امداد ملی۔ اقوام متحدہ نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ خوراک کی امداد کو اقلیتی آبادی والے اور اپنے کنٹرول سے باہر والے علاقوں تک پہنچنے سے روک رہے ہیں۔
افیون کی پیداوار ایک طویل عرصے سے افغانستان میں غیر قانونی آمدنی کا ذریعہ تھی۔
دنیا کی 90 فیصد ہیروئن کی پیداوار افغانستان سے ہوتی تھی۔ صرف 1999 میں، 46سو میٹرک ٹن افیون افغانستان میں پیدا ہوئی، جس کی مالیت 251 ملین ڈالر یعنی کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریبا دسواں حصہ تھی۔ اگرچہ طالبان نے افیون کی پیداوار پر سال 2000 میں پابندی عائد کر دی تھی، افیون کی قیمتیں بڑھنے کا فائدہ طالبان رہنماوں اور ان کے اتحادیوں کو ملا، جن کا عمل دخل افیون کی تجارت میں بدستور جاری رہا۔
طالبان کا موجودہ دور
2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد معاشی سرگرمیاں اور غیر ملکی امداد دوبارہ بحال ہوئی۔ طالبان کے 2021 میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل کے 20 سالوں میں افغانستان کو 77 ارب ڈالر کی معاشی امداد ملی، جبکہ افغانستان کی مجموعی قومی پیداوارمیں 20 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا۔ صحت کی سہولتیں اور معیار زندگی بہتر ہو چکا تھا، اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کو ایک ہزارکے مقابلے میں پچاس تک لایا جا چکا تھا۔
لیکن حکومتی سطح پر ہونے والی بد عنوانی، سیاسی عدم استحکام اور مسلسل پر تشدد شورش نے افغانستان دنیا کا غریب ترین ملک بنا کر رکھا۔ 2021 میں طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے معاشی نتائج فوری سامنے آئے۔ ملک کا جی ڈی پی بیس فیصد کم ہو گیا ۔ افغانستان پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ملک کے 7 ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثے اور غیر ملکی امداد منجمد ہو گئی۔ یہ رقم ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کے 43 فیصد کے برابر اور افغانستان کے سرکاری اخراجات کے 75 فیصد کے لئےکافی تھی، جی ڈی پی کم ہو کر صرف 2 ارب ڈالر رہ گیا۔
طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے ، کوویڈ 19 کے حالیہ اثرات، اور بد ترین قحط کے نتائج نے مل کرافغانستان میں وہ صورتحال پیدا کی، جسے اقوام متحدہ نے دنیا کا بد ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے ، کوویڈ 19 کے حالیہ اثرات، اور بد ترین قحط کے نتائج نے مل کرافغانستان میں وہ صورتحال پیدا کی، جسے اقوام متحدہ نے دنیا کا بد ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی مستحق افغان آبادی کی تعداد جو 2021 میں 18 اعشاریہ 4 ملین تھی، بڑھ کر2023 میں 28.3 ملین یا ملک کی آبادی کا دو تہائی ہو گئی، جبکہ خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد دوگنی ہو کرتیس لاکھ اٹھاسی ہزار یا 3.88 ملین ہو گئی۔
اس دوران، طالبان کے جبر نے ایک بار پھر انسانی ہمدردی پر مبنی امداد کی فراہمی کو نقصان پہنچایا، کیونکہ سیو دا چلڈرن جیسے اداروں، اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اپنی خواتین ملازمین پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں معطل کرنی پڑیں۔
افیون کی پیداوار جو طالبان کی شورش کے دوران ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے استعمال ہو رہی تھی، 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اس کے کاروبار میں تیزی آئی ہے۔ افیون کی 56 سو میٹرک ٹن کی بمپرفصل تیار ہوئی، جس سے 2022 کے دوران 1.4 ارب کی ریکارڈ آمدنی حاصل کی گئی۔ اگرچہ طالبان نے سرکاری سطح پر افیون کی کاشت پر پابندی دوبارہ عائد کر دی ہے اور طالبان رہنماوں نے تسلیم کیا ہے کہ کسانوں کو منافع بخش ذرائع آمدنی کے متبادل ذرائع پیدا کرنے کے لئے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے ۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ادارے نے 2023 میں افغانستان کے لئے 3 اعشاریہ 23 ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی تھی، جس میں سے اگست کے مہینے تک صرف 800 ملین ڈالر ہی اکٹھے ہو سکے ہیں۔ امریکہ اور دنیا کے دیگر ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم کئے بغیر یا انہیں رقوم فراہم کئے بغیر افغان عوام کو امداد فراہم کرنے کی طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ بعض پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں، امریکی کی جانب سے افغانستان کے منجمد کئے گئے نصف کے قریب فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران پر فوری قابو پانے کے لئے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔
پانچواں حصہ خواتین کے حقوق
افغانستان میں بنیاد پرستی پر مبنی اسلامی تعلیمات اور پدر شاہی کی قبائلی روایات کے اثر کے سبب خواتین کے حقوق ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔ بیسویں صدی میں کابل کی مرکزی حکومتوں کی طرف سے جدید اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دوردراز کے صوبوں تک ان کے اثرات پہنچنے میں مشکلات پیش آتی رہیں اور اکثراوقات بعد میں بننے والی حکومتوں نے ان اصلاحات کو ختم کر دیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
طالبان کا پچھلا دور
افغان خواتین کو 1964 میں ووٹ کا حق اور مساوی حقوق فراہم کئے گئے۔ یہ غیرمعمولی آزادی صدر داؤد خان اور ان کے بعد آنے والی کمیونسٹ حکومتوں میں بھی جاری رہی۔ نوے کی دہائی تک افغان وومن کونسل کے ممبران کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی، دو لاکھ تیس ہزار کے قریب لڑکیاں سکولوں میں پڑھ رہی تھیں اور ملک کے تعلیمی اداروں میں بائیس ہزار خواتین پڑھا رہی تھیں۔ لیکن خواتین افغانستان کے دوردراز صوبوں میں مقامی روایات کی قیدی رہیں جب کہ دیہی علاقوں میں ان اصلاحات کو مغرب کی اخلاقی گراوٹ کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔ یہ وہ چیز ہے جو اسلامی بغاوتوں کی حمایت کے لیے بھی ایندھن فراہم کرتی ہے۔
ملک میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کے دوران کچھ مجاہدین کے گروپوں نے عورتوں کے حقوق کی بھی مخالفت کی، اور دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو نشانہ بنایا گیا، خواتین کو کہیں اغوا کیا گیا تو کہیں انہیں ریپ کا سامنا کرنا پڑا۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد صنفی مساوات کا عمل تیزی سے رو بہ زوال ہوا۔ حقوق ختم ہوتے گئے۔ طالبان نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت قائم کی جس نے ان حقوق کے خاتمے کے عمل کی نگرانی کی۔
خواتین کے لیے اب برقعہ پہننا لازم تھا۔ جسے افغانستان میں چادری کہا جاتا ہے۔ اس برقعے میں سر سے پاوں تک پورا جسم ڈھانپا جاتا ہے۔ اور آنکھوں کے سامنے جالی ہوتی ہے۔ بیواؤں کے سوا کسی خاتون کو کام کرنے اور مرد رشتے دار کے بغیر گھر سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ آٹھ برس سے زیادہ عمر کی بچیوں کو سکول جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اگرچہ، گولڈن نیڈل سیوئنگ اسکول جیسے سلائی کے ادارے خفیہ طور پر بچیوں کو پڑھاتے رہے۔
ملک میں ڈاکٹرز اور معلمین کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل تھی۔ ان پر فوری طور پر پابندی کی وجہ سے پوری آبادی کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا۔ ریڈ کراس کی جانب سے مداخلت کے بعد طالبان نے میڈیکل کی چندطالبات کو تعلیم جاری کرنے کی اجازت دی۔ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو بھی اپنے کام میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ خواتین کو کام پر نہیں رکھ سکتے تھے۔
طالبان نے ان پابندیوں کو عارضی جنگی اقدامات قرار دیا لیکن شریعہ کے مطابق خواتین کو کام اور تعلیم کی اجازت دینے کے وعدے اب تک پورے نہیں ہوسکے۔ خواتین کے تحفظ کے دعوؤں کے باوجود بعض طالبان کمانڈر اور القاعدہ میں ان کے بعض حلیف، سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کے اغوا اور ان کی اسمگلنگ میں بھی ملوث پائے گئے۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- انیس سو نوے کی دہائی میں طالبال کے زیر کنٹرول علاقوں میں حجاب کو خواتین کے لئے لازمی قرار دیا گیا تھا۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- خواتین کے لئے سر سے پاوں تک ایک بڑی سے چادر پہننا لازم تھا،جس سے دیکھنے کے لئے آنکھوں کی جگہ جالی لگائی جاتی تھی ۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- طالبان نے خواتین کے کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی تھی۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- لڑکیوں اور خواتین کوسکول یا یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں تھی ۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- خواتین اب کام نہیں کر سکتی تھیں۔ جب طالبان کابل پہنچے تو خواتین کو اپنی ملازمتوں کی فکر تھی، کیونکہ زیادہ تر افغان عورتیں کابل میں رہتی تھیں۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- کابل میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر میں، طالبان نے ریڈیو کابل پر اعلان کیا کہ وہ تمام بہنیں جو کام کرنے کے لئے باہر نکلتی ہیں، اگلے احکامات تک اپنے گھروں میں ہی رہیں۔
-
انیس سو نوے کی دہائی
- طالبان نے ہمیشہ کہا کہ جب لڑائی ختم ہو جائے گی، تو خواتین شریعہ قانون کے مطابق تعلیم اور ملازمتوں پر واپس جا سکیں گی، لیکن ان کے پہلے دور میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔
طالبان کا موجودہ دور
طالبان کے قبضے سے پہلے پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کی تعداد تقریباً 35 لاکھ تھی، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے 450،000 طالب علموں میں 33 فی صد خواتین تھیں، سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد خواتین، پارلیمنٹ کے ارکان میں 28 فی صد خواتین، سرکاری ملازمین میں 21 فی صد خواتین اور فغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز کے 300،000 ارکان میں خواتین کی تعداد 6،300 تھی۔
اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد، طالبان نے ابتدائی طور پر اشارہ کیا کہ وہ زیادہ اعتدال پسند طرز عمل اختیار کریں گے اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔ اس کے بعد سے، انہوں نے پابندیوں کا ایک سلسلہ متعارف کرایا ہے جس نے خواتین کی دو دہائیوں کی ترقی کو بتدریج ختم کر دیا ہے۔
اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد، طالبان نے ابتدائی طور پر یہ اشارہ یا کہ وہ زیادہ اعتدال پسند طرز عمل اختیار کریں گے اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔ اس کے بعد سے، انہوں نے پابندیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس نے خواتین کی دو دہائیوں کی ترقی کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر، طالبان نے اعلان کیا کہ خواتین الگ الگ کلاس رومز میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی ستمبر 2021 میں اسکول دوبارہ کھلے، لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے جانے سے منع کر دیا گیا۔ امربالمعروف نہی عن المنکر کی وزارت کو بحال کر دیا گیا، جس نے خواتین کے امور کی وزارت کی جگہ لے لی۔
2021 میں، خواتین کو مرد سرپرست کے بغیر 45 میل سے زیادہ سفر کرنے سے روک دیا کیا گیا، اور ڈرائیوروں کو حجاب نہ پہننے والی خواتین مسافروں کو بٹھانے سے منع کیا گیا۔ 2022 میں مزید پابندیاں لگائی گئیں۔ خواتین کو پہلے الگ تھلگ کیا گیا اور پھر پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پران کے داخلے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ ٹیلی ویژن کی میزبان خواتین کو ایک بار پھر نشریات کے دوران چہرے ڈھانپنے کا حکم دیا گیا، اور یونیورسٹیوں میں خواتین پر پابندی کو باضابطہ قرار دے دیا گیا۔
بین الاقوامی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، کچھ نے اپنے خواتین عملے پر پابندی کی تعمیل کرنے کی بجائے اپنی سرگرمیاں معطل کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
طالبان کا تازہ ترین اقدام جولائی 2023 میں بیوٹی سیلونز کو بند کرنے کا حکم ہے، جو ان آخری مقامات میں سے ایک ہے جہاں افغان خواتین گھر سے باہر مل سکتی ہیں۔
ایک جامع حکومت کے قیام کے وعدوں کے باوجود، طالبان کی اعلان کردہ عبوری کابینہ خصوصی طور پر مردوں پر مشتمل تھی، جب کہ احتجاج کرنے والی خواتین اور صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کے ارکان کے طور کام کرنے والی 28 خواتین ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں لیکن وہ طالبان کی پالیسیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا، طالبان نے خواتین کے متعدد احتجاجوں کو تشدد سے دبا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ خواتین کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جا سکتا ہے۔
خواتین کو متاثر کرنے والے طالبان کے احکامات اور اعلانات
اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد، طالبان نے افغانستان میں ایک بار پھر خواتین پر جابرانہ پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔ تاہم اس بار پابندیاں بتدریج لگائی گئیں۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کی دو دہائیوں کی کامیابیوں کو مٹا دیا ہے جو انہوں نے طالبان کے قبضے سے پہلے حاصل کیں تھیں:
- تقریباً 35 لاکھ لڑکیاں اسکول جا رہی تھیں
- اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل ہونے والے 450،000 طالب علموں میں لگ بھگ 33 فی صد خواتین تھیں۔
- تقریباً 30 شہری ملازمین خواتین تھیں
- تقریباً 28 فی صد ارکان پارلیمنٹ خواتین تھیں
- شہری ملازمین میں تقریباً 21 فی صد خواتین تھیں
- تقریباً 300،000 نفری پر مشتمل افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) میں 6300 خواتین تھیں۔
-
اگست 2021
- خواتین کو اگلے نوٹس تک گھرمیں رہنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ خواتین کے احترام کے حوالے سے طالبان جنگجوؤں کی تربیت نہیں تھی۔
-
اگست 2021
- مخلوط تعلیم پر پابندی لگا دی گئی اور مرد اساتذہ کو لڑکیوں کو پڑھانے سے روک دیا گیا۔
-
ستمبر 2021
- لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی
-
ستمبر 2021
- امور خواتین کی وزارت کو امربالمعروف نہی عن المنکر کی وزارت سے تبدیل کر دیا گیا‘۔
-
دسمبر 2021
- خواتین پر محرم کے بغیر طویل سفر (45 میل) کرنے پر پابندی لگا دی گئیِ۔
-
دسمبر 2021
- ڈرائیوروں کو بغیر حجاب والی مسافر خواتین کو نہ بٹھانے کا حکم دیا گیا۔
-
فروری 2022
- یونیورسٹیوں کو صنفی بنیاد پر الگ کلاسزکا حکم دیا گیا۔
-
اپریل 2022
- طالبان نے پارکوں میں جانے کے لیے مردوں اور خواتین کے مختلف دنوں کا اعلان کیا۔
-
اپریل 2022
- طالبان نے یونیورسٹیوں میں طلبہ اور طالبات کے لیے ہفتے کے مختلف دنوں کا اعلان کیا۔
-
مئی 2022
- طالبان نے ٹیلی وژن کی میزبان خواتین کو آن ایئر جاتے وقت چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا۔
-
نومبر 2022
- طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے جم جانے پر پابندی لگا دی۔
-
نومبر 2022
- اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خواتین کے خلاف طالبان کے سفاکانہ اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل ہو سکتے ہیں۔
-
دسمبر 2022
- طالبان نے خواتین کی یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔
-
دسمبر 2022
- طالبان نے بین الاقوامی اور قومی این جی اوز کو خواتین کا مقامی عملہ معطل کرنے کا حکم دیا۔
-
جولائی 2023
- خواتین نے خواتین کے بیوٹی سیلونز کو ایک ماہ میں بند کرنے کا حکم دیا۔
Resources:
- United States Institue of Peace, The Taliban Continue to Tighten Their Grip on Afghan Women and Girls
- UNESCO, The right to education: What's at stake in Afghanistan?
- Brookings, The fate of women's rights in Afghanistan
نتیجہ
ابتدائی امیدیں یہ تھیں کہ طالبان کی نئی نسل اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند ہوگی جنہوں نے عسکریت پسندوں کے طور پر اپنی طاقت کو مستحکم کیا اور افغانوں کی زندگیوں میں زیادہ جابرانہ اقدامات متعارف کرائے تھے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا افغانستان میں اقتدار پر طالبان کی گرفت برقرار رہے گی۔ لیکن فی الحال، بین الاقوامی برادری خود تذبذب کا شکار ہے جہاں اسے افغانستان کے لوگوں کی مدد کے لیے اس حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو ان کی حالت زار کی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔
کریڈٹس
رائٹرْ/ پروڈیوسر: ایلکس جنیڈلر، روشن نورزئی
سکرپٹ ایڈیٹرز: میگین ڈوزور، شیرون شاہد
خاکے اور گرافکس: سیشکو ڈینلینکو، ولید حداد، مارک سینڈرین
ایگزیکٹو پروڈیوسر: یاس مونم
ڈیٹا انیلیسز: ریان ڈیمرون
خصوصی شکریہ: عائشہ تنظیم، جان فیدرلی، حسیب دانش علی کوزئی
ویب ڈیزائن اینڈ ڈیولپمنٹ: سٹیفن میکوش، ڈینو بسلیجک