جاش نیس ماونٹ کیرول، النائے، میں ایک ہارڈ ویئر سٹور کے سیلز کلرک ہیں۔ جو گزشتہ 15 سالوں سے کسانوں کو وہ اشیا محیا کرتے رہے ہیں جو انہیں چاہییں
ہم آپ کیا کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ یہ سوال تھا دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے، جاش نیس کا ایک کسان سے، جو پیچ اور نٹ وغیرہ خریدنے وہاں آیا تھا۔ چند منتوں میں یہ لین دین ختم ہو گیا۔
امریکہ کے دیہی علاقے میں، تقریبا ً ہر روز، کاشت کار اپنی ٹرک نما گاڑیوں میں، قصبوں اور چھوٹے شہروں کا رُخ کرتے ہیں، جہاں ضرورت کی چیزیں میسر ہوتی ہیں۔
ریاست الینائے کی کیرول کاؤنٹی کا سب سے بڑا قصبہ، ماؤنٹ کیرول ہے۔ اکثر کسان خریداری کیلئے ماؤنٹ کیرول ہوم سینٹر آ کر رُکتے ہیں۔ اس سٹور میں گھروں کی سجاوٹ کی چیزوں سے لیکر، اور بہت سا سامان بھی ملتا ہے، جس میں فارم پر کام کے اوزار اور میکانکی اور برقی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔
نیس گزشتہ پندرہ سالوں سے، کسانوں کو ان کی ضرورت کی اشیا فراہم کرتے آئے ہیں۔ چونکہ وہ یہیں پلے بڑھے، اس لئے وہ کاشت کاری اور ذراعت کو خوب سمجھتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگ احاطہ بندی کیلئے ضروری اشیا خریدنے آئے تھے، مثلاً خار دار تاریں، گیٹ، نٹ اور بولٹ وغیرہ، جس سے ان کا کام چلتا رہے۔
لیکن گزشتہ دو برسوں سے، غلے کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے بہت سے کسان ہاتھ روک کر بیٹھے ہیں۔ نیس کہتے ہیں اس کا اثر کاروبار پر بھی پڑا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس پیسے نہیں ہو نگے تو وہ خریداری نہیں کریں گے، یعنی وہ اپنے جنگلے کی کوئی زیادہ مرمت وغیرہ نہیں کریں گے۔ یہ لوگ کوئی نئی چیز نہیں خریدیں گے۔ وہ پیسے نہیں خرچ کریں گے۔
دیہی علاقوں کے چھوٹے قصبوں اور شہروں کے کاروبار کا زیادہ تر انحصار انہی کسانوں پر ہوتا ہے۔
اگر کسان اپنے اخراجات کو محدود کریں گے تو ہر ایک کو اِس کے اثرات محسوس ہونگے۔ ان میں کھاد اور چارے وغیرہ کے سٹور، زمین کی جانچ کرنے والے ٹیکنیشن، جانوروں کے ڈاکٹر، مقامی دندان ساز، دوا ساز، اشیائے ضروریہ بیچنے والے، گاڑیاں فروخت کرنے والے سیلز مین وغیرہ شامل ہیں۔
نیس کا کہنا ہے کیرول کاؤنٹی کے کسانوں نے اس جھٹکے کو، ذراعتی زندگی کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیا ہے، اور اب وہ آگے کی جانب دیکھتے ہوئے بہتر وقتوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ”وہ واپس کھیتوں میں جانے کیلئے بے چین ہیں”۔
کھیتی باڑی پر اخرجات میں کمی ہونے کا ایک اور عنصر، گزشتہ سال، صدارتی انتخابات پر چھائی بے یقینی اور افراتفری تھی۔ نیس کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جیت سے بہت سے لوگ ہِل کر رہ گئے ہیں۔ پھر بھی، جب وہ اپنی صدارت کا آغاز کر رہے ہیں، تو زیادہ تر لوگ، بشمول وہ لوگ جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ بھی نہیں دیا تھا، اُن کو ایک موقع دینے کیلئے تیار ہیں۔
نیس کہتے ہیں کہ یہاں کے دیہی علاقے میں، واشنگٹن میں ہونے والے بحث مباحثوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح کے واقعات میں، اس سے بھی کم دلچسپی لی جاتی ہے، حالانکہ یہاں کے کسان اپنی مکئی دوسرے ملکوں کو بیچتے ہیں
نیس کا کہنا ہے کہ بہت سے غیر ملکی سیاح، گرمیوں میں ماؤنٹ کیرول سے گزرتے ہیں، مگر یہاں بہت کم تارکینِ وطن رہتے ہیں۔
دریائے مسی سپی کیرول کاؤنٹی کے مغربی کنارے پر بہتا ہے، اور دریا کے ساتھ ساتھ دیکھنے کیلئے بہت سے مقامات ہیں۔
نیس نے بتایا کہ انہوں نے گرمیوں میں یہاں چین کے باشندوں کی آمد میں خصوصی اضافہ دیکھا ہے۔ ان میں سے بعض، سٹور پر مچھلی پکڑنے کا سامان خریدنے آتے ہیں۔
چونکہ ان میں سے بہت کم افراد انگریزی بول سکتے ہیں، اس لئے وہ ان سے بات چیت کیلئے ہاتھوں کے اشاروں سے کام چلاتے ہیں، جس کا مظاہرہ بھی انہوں نے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں چینیوں نےمختلف کاروبار میں سرمایاکاری کی ہے اور ماؤنٹ کیرول میں چند عمارات بھی خریدی ہیں۔
نیس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ سوچتے ہیں حقیقت میں وہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے چین کے سرمایا کاروں نے یہاں آنا جانا شروع کیا ہے، تب سے اس چھوٹے سے شہر میں افواہوں کا بازار خوب گرم ہے۔
حالیہ برسوں میں، چین نے امریکی ذراعت میں زبردست سرمایاکاری کی ہے۔ انہوں نے ذراعتی رقبے بھی خریدے ہیں اوراس سے متعلق صنعت بھی۔
سن دوہزار بارہ میں، ایف بی آئی نےسات چینی باشندوں پر، ریاست الینوئے اور آئیوا سے جدید ترین بیج چرانے اور انہیں ملک سے باہر سمگل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم، چین کے سرمایا کاروں کے ساتھ کام کرنے والے معاشی نمو سے متعلق اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے، امریکہ میں اربوں ڈالر کی سرمایا کاری سے، معیشت میں اسی ہزار ملازمتوں کا اضافہ ہوا ہے۔
گو کہ، جاش نیس ایسے معاملات پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے، پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ وہ روز مرہ کی بنیاد پر معمولات کو دیکھتے ہیں اور اُن کا یقین کرتے ہیں۔