رون گرُواین ہیگن، مُسکاٹِین، آئیوا کے ایک کسان ، کہتے ہیں کہ امریکی کسانوں کا بین القوامی منڈیوں پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ “ اگر یہ منڈیاں نہ ہوں تو ہمارے پاس بہت زیادہ غلہ اور سویا بین ہو گا اور شائد ہمیں پتا ہی نہیں ہو گا کہ ہم اس کا کیا کریں”۔
تہتر سالہ رون گرُواین ہیگن، انیسویں صدی کے وسط میں یہاں آ کر آباد ہونے والے جرمن تارکینِ وطن کی أولاد ہیں۔ رون اور اِ ن کے ہم عمر لوگوں کی زیادہ تر دنیا، ریاست آئیوا کی کاؤنٹی مُسکا ٹِین اور اس کےگرد و نواح کی کاؤنٹیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے چند ریاست الی نوئے میں بھی واقع تھیں۔ اُن کی ذرعی پیداوار یہیں انہی کاؤنٹیوں میں استعمال ہوتی تھی۔ تاہم، آجکل، ان کے زیادہ تر کام کاج کو، واشنگٹن میں بنائے گئے ضوابط کے تحت چلنا ہوتا ہے، جبکہ ان کی پیداوار کا بڑا حصہ، دنیا کے کہیں دوسرے کنارے، چین میں استعمال ہوتا ہے۔
رون کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کا بڑی حد تک انحصار، غیر ملکی منڈیوں پر ہے۔ اگر وہ نہ ہوں، تو پھر ہمارے ہاں غلے اور سویا بین کے ڈھیر لگ جائیں، اور شاید ہمیں یہ بھی علم نہ ہو کہ ہم اِن کا کیا کر سکتے ہیں۔
صدر ڈدونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن تجارتی معاہدوں پر دوبارہ مذکرات کریں گے جو اُن کے نزدیک امریکہ کے مفاد میں نہیں تھے۔ انہوں نے ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ نامی معاہدے سے بھی امریکہ کو الگ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد، امریکہ اور دیگر دس ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینا تھا۔
بہت سے کسان اور کاروباری لوگ چین، میکسیکو اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ کے بارے میں فکر مند ہیں، کیونکہ یہ ممالک قریبی تجارتی شراکت دار بن چکے ہیں۔ لیکن، رون کے نزدیک ٹرمپ کا اختیار کردہ سخت موقف، ان کے بھاؤ تاؤ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔
اس نے کہا کہ اس سے مجھے تشویش تو ہوتی ہے، لیکن یہ سب مذاکرات ہی کا حصہ ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ مذاکرات سے ہوتا ہے۔ آپ کسی سٹور سے ڈبل روٹی خرید رہے ہوں یا نیا ٹریکٹر، تو وہ سب گفت و شنید کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ریاست آئیوا کی مُسکا ٹِین کاؤنٹی کا، چین کے ساتھ خصوصی تعلق ہے، کیونکہ سن انیس سو پچاسی میں، جب چین کے صدر ژی جن پنگ، بطور پروونشل آفیسر، امریکی ذراعت کے بارے میں جاننے کیلئے آئے تھے، تو وہ یہاں کے ہی ایک خاندان کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ جب وہ سن دوہزار بارہ میں، بطور نائب صدر، امریکہ کے دورے پر آئے تھے، تب یہاں سے تعلق رکھنے والے ا ُن کی جان پہچان کے بہت سے لوگ اُن سے ملنے آئے تھے۔
استقبالیہ کمیٹی، جو مقامی کاروباری شخصیات پر مشتمل تھی، بعد میں مُسکا ٹِین چائینہ اینی شیٹِو میں تبدیل ہو گئی تھی، جس کا مقصد کاؤنٹی اور چین کی کمپنیوں کے ساتھ سرمایا کاری اور کاروباری تعلق کو فروغ دینا تھا۔
حال ہی میں، مُسکا ٹِین کاؤنٹی نے ریاست آئیوا کے گورنر، ٹیری برینسٹارڈ کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا، جب صدر ٹرمپ نے اُنہیں چین کیلئے گورنر نامزد کیا تھا۔ اس تقریب میں چین کے روایتی آرکیسٹرا نے بھی فن کا مظاہرہ کیا تھا، جسے شکاگو میں قائم چین کے کونسل خانے نے فراہم کیا تھا۔
رون کے خیال میں، چین سے تعلق رکھنے والا لیڈر، جو آئیوا اور امریکہ کے دیہی علاقے سے واقفیت رکھتا ہے، فائدہ مند ہے۔
رون کہتے ہیں کہ وہ یقیناً یہاں کی ذراعت کو سمجھتے ہیں، اور جب میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے لوگوں کو آپ سمجھتے ہوں تو آدھے مذاکرات تو یہیں پورے ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے سخت موقف کے باوجود، تجارت میں کوئی خلل پیدا نہیں ہو گا۔
جب سے ہم ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگے ہیں، یعنی وہ ہمارے غلے پر، اور ہم اُن کی فراہم کردہ مصنوعات پر، تو یہ باہمی انحصار، پر امن دنیا کیلئے، شاید بہت اہم ہے۔
رون کو یقین کہ صدر ٹرمپ، دنیا میں امریکہ کی حیثیت میں، بقول انکے، تنزلی کو دوبارہ اوپر لا ئیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا میں سپر پاور ہونے کا مرتبہ کھو چکے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ہمیں اب بھی سپر پاور کہا جاتا ہو، لیکن ہمیں عظیم نہیں کہا جاتا۔ اُن کے خیال میں، اب ہم ماضی کے مقابلے میں زیادہ اونچے مقام پر جائیں گے، اور احترام حاصل کریں گے۔
انہوں نے اِس امید کا اظہار بھی کیا ٹرمپ انتظامیہ، ریپبلکن اکثریت والی کانگریس کی پشت پناہی سے، کاروباروں، صنعت اور ذراعت پر عائد ضوابط کے سبب پڑنے والے بوجھ کو ختم کرے گی، جبکہ ماحولیات کی حفاظت کی ایجنسی سب سے بڑی قصور وار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ، بظاہر اس ایجنسی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوانین اور ضوابط ان کے گلے کو آ رہے ہیں، اور ان ضوابط کو پورا کرتے ہوئے، ان جیسوں کا بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
حالانکہ وہ کاشت کاری کے اُن طریقوں کے حق میں ہیں، جوٕ تحفظِ ماحولیات، زمین کو محفوظ رکھنے سے متعلق ہیں۔ تاہم رون اس پر یقین نہیں رکھتے کہ مرکزی حکومت آئیوا کے کسانوں کو بتائے کہ کیا کرنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تو کسان خود فیصلہ کرے گا کہ اس کے فارم کیلئے کیا اچھا ہے، زمین کو کیسے بہتر بنایا جائے، بجائے اس کے کہ واشنگٹن کے بابو یہ بتائیں ان کے لئے کیا بہتر ہو سکتا ہے۔
پھر بھی ماحولیات کے ماہر کوئی زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاشتکاری سے متعلق بڑے ادارے، جن کے فیصلہ ساز کہیں اور رہتے ہیں، اکثر زمین کے بجائے فائدے کو اہم جانتے ہیں۔
رون کا بیٹا اور ان کا پوتا، فارم کو چلانے میں ان کا مدد گار ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ وہ جب اس زمین، عمارات اور لاکھوں ڈالر مالیت کے آلات کے وارث ہونگے، تو خاندان کا نام آگے بڑھانے میں خوشی محسوس کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کام تو بہت زیادہ ہے، لیکن ہمیں خوشی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کیلئے خوراک پیدا کرتے ہیں، اور ہاں دنیا کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔