امریکہ کی ذراعتی پٹی پر موجود متعدد چھوٹے چھوٹے قصبوں کی طرح، ڈونیلسن کے مرکز میں بھی چند دکانیں ہیں، جو اندھیرا ہوتے ہی بند ہو جاتی ہیں، اور اختتام ہفتہ یہاں کچھ بھی کھلا ہوا نہیں ہوتا۔ تاہم اس قصبے کے کنارے یہ کریانہ سٹور اختتامِ ہفتہ بھی کھلا رہتا ہے۔ دیہی علاقوں میں، چھوٹے قصبے، عام کسانوں اور کاشت کاری سے منسلک دیگر افرد کی وجہ سے پھل پھول رہے تھے، لیکن اب صرف چند ہی کاشت کار رہ گئے ہیں، اور بہتر سڑکیں ہونے کی وجہ سے، لوگ تھوڑی دور جا کر، والمارٹ جیسے بڑے سٹوروں سے ضرورت کی اشیا خریدتے ہیں، جو بہتر ورائیٹی اور قیمتوں کی پیشکش کرتے ہیں۔
اینڈریو، فورٹ میڈیسن کے علاقے میں قائم، سیمینز فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ رہتے یہاں دیہی علاقے میں ہے، کیونکہ یہاں اُنہیں اچھا لگتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حالات اجازت دیں تو وہ نوکری چھوڑ کر، کاشت کاری کریں گے۔
جب انہوں نے ہائی سکول پاس کیا، تو یہاں ذراعتی علاقوں کے رہنے والے، دیگر نوجوانوں کی طرح، اانہیں بھی ایک مخصوص صورتحال کا سامنا تھا، اور وہ یہ تھی کی ذراعت میں مشینوں کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے مزدوری کم ہو کر رہ گئی تھی۔
سیمینز کے پلانٹ میں، پن چکیوں کے بلیڈ بنتے ہیں، جن سے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس پلانٹ پر سات سو کے قریب افراد کام کرتے ہیں، جنہیں بیس ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ انیڈریوز نے ہائی سکول کے فوراً بعد، وہاں ملازت اختیار کر لی، لیکن اس کے اندر کا کسان کبھی نہیں مرا، اور وہ کوئی پیسہ لئے بغیر، کاشتکاری میں، اپنے کسان رشتے دار کا ہاتھ بٹا دیتا۔ اس نے فورٹ میڈیسن کے قریب جگہ کرائے پر لیکر وہاں بیس کے قریب گائیں پالی ہیں۔
اُس نے بتایا کہ جب وہ تین سوساٹھ کلو گرام کی ہو جاتی ہیں، تو وہ اُنہیں بیچ دیتا ہے، اور پھر نئی خرید لیتا ہے۔ اس نے بتایا کہ بھینسیں اور گائے پالنا اس نے اپنے دادا سے سیکھا تھا۔
اینڈریوز اور اس جیسے بہت سے نوجوان، جنہیں کاشت کاری سے لگاؤ تھا، اپنی خواہشوں کو پیچھے چھوڑنا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ معیشت ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ زمینوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں، جدید ذراعت کے تقاضے بھی مہنگے تھے۔ امریکی محکمہ ذراعت کے سن دوہزار بارہ کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں فارم چلانے والوں کی اوسط عمر اٹھاون سال ہے، اور وہ سارے ہی مرد ہیں۔ سن انیس سو ستاون اور دو ہزاربارہ کے درمیان، نئے کسانوں کی شمولیت میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی۔ مرد شماری سے ظاہر ہوا کہ فارموں کی تعداد میں چار فیصد کمی ہوئی، جبکہ فارموں کے رقبے میں تین اشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔
ڈونیل سن میں جس روز اینڈریو سے ہماری ملاقات ہوئی، وہ اس دن، اوپن کیری کلاس کیلئے جا رہا تھا، جس کے معنی ہیں کہ بغیر غلاف وغیرہ کے آتشیں اسلحہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جانے سے متعلق سیکھنا۔ بہت سے شہری علاقوں میں، لوگوں نے ایسی کلاسیں اس لئے حاصل کیں، تا کہ وہ پستول وغیرہ کو اپنی بیلٹ میں لگا کر گھومنے کیلئے اجازت نامہ حاصل کر سکیں۔ تاہم اینڈریوز کا کہنا ہے کہ اُسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اُسے شکار کا بہت شوق ہے، اور شکار کے موسم میں وہ ہر وقت اپنی گاڑی میں بندوق کھلی رکھتا ہے۔
اس علاقے میں اینڈریوز سمیت بہت سے نوجوانوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ گزشتہ سات سال سے ووٹ دینے کا اہل ہے، لیکن اس نے گزشتہ دو انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی مسئلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ سوائے ایک کے۔
اس کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ ہوا سے توانائی پیدا کرنے کا کاروبار چلتا رہے، کیونکہ صدر ٹرمپ اس کے کوئی خاص حامی نظر نہیں آتے۔
اینڈریوز، ٹربائین کے بلیڈ وں کی جانچ کرتا ہے اور اگر ان میں کوئی خرابی ہو تو اس کو دور کرتا ہے۔ اسے ہوا سے توانائی پیدا ہونے کی صنعت سے ذاتی فائدہ ہے، لیکن اس کے پاس ماحولیاتی آلودگی کے حق میں کوئی خاص دلیلیں نہیں ہیں۔
ریاست آئیوا میں، امریکہ میں سب سے زیادہ ہوا سے پیدا کردہ توانائی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ریاست میں، پن چکیاں، استعمال ہونے والی توانائی کا تین چوتھائی، پیدا کرتی ہیں۔ اس خوف کے باوجود کہ ٹرمپ انتظامیہ، روایتی توانائی کی نمو میں دلچسپی رکھتی ہے، جس سے ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی کی صنعت کو اور شاید اس کی ملازمت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، پھر بھی اینڈریوز کے خیال میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔