ریاست وسکانسن میں دریائے مسسی سپی کے کنارے، دیہی آبادی پر مشتمل ٹریم پیلُو کاؤنٹی میں، منگل کی ایک خاموش سی دوپہر میں، ایک بزرگ کسان تھرمن ٹونر اور انکی اہلیہ جینِیس، بُون ڈوکس لوکر روم ریستوران میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے یہ کھانا، ایک براؤنی اور دودھ کے دوگلاسوں پر ختم کیا۔ تراسی سالہ تھرمن اب کاشت کاری نہیں کرتے۔
اس جوڑے کا کہنا ہے کہ کاشت کاری ان کی ضروریات کے لئے بہت تھی، اور خا ص کر گزشتہ چودہ برسوں کے دوران، جب اُنہوں نے نامیاتی یعنی اورگینِک کاشت کاری کی جانب توجہ مبذول کی، جو روایتی کاشت کاری کی نسبت زیادہ منافع بخش تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی آرام دہ تھی لیکن چند سالوں سے ایک عمومی تنزلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اس علاقے میں زیادہ تر لوگ کچھ اسی طرح سے بات کرتے ہیں کہ گئے دن اچھے تھے جب لوگوں کے پاس پیسے زیادہ تھے، اور خوف کم تھا۔
ایک سطح پر، تھرمن اس کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتظامیہ کی توجہ کھلے ہاتھوں رقم دینے پر کچھ زیادہ ہی مرکوز رہی، جس سے غربا کی تو بسر أوقات ہوتی رہی، اور امیر مزید امیر ہوتے گئے، لیکن متوسط طبقے کے لوگ پِس کر رہ گئے۔
کھیتی باڑی سے ریٹائر ہوئے تھرمن کا کہنا ہے کہ ذراعت کو بھلا دیا جائے گا۔
تھرمن ٹونر ایک رٹائرڈ کسان اور انکی اہلیہ جینِیس
حکومت نے ذراعت میں اچھی خاصی سرمایا کاری کی، لیکن زیادہ تر سرکاری امداد بڑے بڑے فارموں کو فراہم کی گئی۔ ٹریم پیلو کاؤنٹی نے گزشتہ عشرے کے دوران، جو کروڑوں ڈالر حاصل کئے تھے، حالیہ برسوں میں ان میں کمی آئی ہے۔ گو کہ اس میں ہمیشہ تسلسل نہیں رہا، پھر بھی اس کاؤنٹی کے متوسط طبقے کی آمدن میں اسی کے عشرے سے اِضافہ ہوا ہے، ۔
اس کے باوجود، یا شاید سخت وقتوں کی وجہ سے، اس ریستوران میں ایک برادری پن کا احساس دکھائی دیتا ہے۔ اس کی مالک میری ہاؤزر کہتی ہیں کہ یہ قریب رہنے والوں کیلئے مل بیٹھنے کا ایک مقام ہے۔
اس ریستوران میں، ووٹر، ہمسایہ سرکٹ کورٹ میں، پرائمری انتخابات میں رائے دہی کے بعد آتے ہیں تا کہ ملنے ملانے والوں سے گپ شپ ہو سکے۔ ایک سرکاری پروگرام کے تحت، اس ریستوران میں ساٹھ سے اوپر کی عمر کے لوگوں کیلئے ہفتے کے دوران دوپہر کا کھانا، تین اشاریہ پچھتر ڈالر کے رعایتی نرخوں پر دستیاب ہے۔ یہاں ایک ریفل ٹکٹ بھی ہے، اور انعام میں خواتین اور مردوں کو ایک پستول ملتا ہے۔ مردوں کیلئے نائین ایم ایم رُوگر اور خواتین کیلئے گلابی رنگ کا پوائینٹ تھرٹی ایٹ سمتھ اینڈ ویلسن کا پستول ہے۔ ریفل میں حاصل ہونے والی رقم عطیہ کی جاتی ہے۔
طویل عرصے سے، بندوقیں اور پستولیں ، امریکہ کی دیہی زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ تاہم یہاں پر سرحدی سلامتی کے بارے میں بات چیت کو شوق سے سنا جاتا ہے۔
گزشتہ سال، انتخابی مہم کے دوران، ڈیموکریٹ امیدواروں کا نعرہ تھا کہ- پل تعمیر کیجئے، دیواریں نہیں- جس سے ایک ایسے کھلے راستے کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کوئی بھی ملک میں داخل ہو کر یہاں کے وسائل استعمال کر سکتا ہے۔ تھرمن کہتے ہیں کہ اس سے اُنہیں شدید خوف محسوس ہوا تھا۔
تاہم جیسے جیسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے، تارکین وطن کی آمد پر کنٹرول سخت کرتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے اس اقدام کی تلخ حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ کی نوجوان نسلوں نے، بہتر پیسے کمانے کیلئے، دیہی زندگی کو خیر آباد کہہ دیا، اور یوں اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ گئیں۔ بغیر دستاویزات کے کام کرنے والوں نے اسی خلا کو پُر کیا۔
تھرمن ٹونر کہتے ہیں کہ اگر اُن سب کو واپس بھیج دیا گیا، تو پھر بہت سےایسے کاروبار ہیں جو بند ہو جائیں گے۔