راشد کو خوف ہے کہ اُس کی نوکری نہ چلی جائے۔ سرینگر میں 88کمروں کا ہوٹل جہاں وہ ایک ویٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ وہاں صرف ایک ہی مہمان ٹھہرا ہوا ہے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی 125 کا عملہ کم کر کے 35 کردیا ہے، اور یہ عندیہ مل چکا ہے کہ اگر کشیدگی بڑھتی رہی تو عملے میں مزید کمی کی جائے گی۔
راشد، جس نے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا، اُسے شدت پسند کمانڈر، برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کا سامنہ تھا۔ یہ گذشتہ جولائی کا وقت تھا، جس سے چندہی روز قبل، سکیورٹی فورسز نے ایک نامورعلیحدگی پسند کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے باعث بھارتی زیرِ انتظام وادی کشمیر میں سالوں بعد شدید نوعیت کی کشیدگی پیدا ہوئی، یہ متنازع سابق جموں و کشمیر کی ریاست کا علاقہ ہے۔ خطے میں، مظاہرین کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں جاری تھیں۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔
راشد نے، جس کی عمر 25 برس ہے، کہا کہ ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟ مجھے پتا ہے کہ مجھے بہت جلد اپنے گاؤں جانا پڑے گا۔ یہ آسان کام نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر میں اُس کے خاندان کی تھوڑی سی زمینیں ہیں، جہاں سیب کے باغات ہیں۔ لیکن، اِس کے لیے، یہ کافی نہیں ہیں۔ اُسے سال بھر کا خرچہ چلانےکے لئے اضافی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غمزدہ لہجے میں، اُس نے کہا ’’اِس وقت، صرف میں ہی باروزگار ہوں‘‘۔
وانی کی ہلاکت سے پہلے، راشد کا روزگار محفوظ تھا۔ سیاحت کی صنعت، جو اِس خطے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، زور پکڑ رہی تھی۔ اس صنعت کو برسوں سے جاری کشیدگی کے نتیجے میں تباہی کا سامنا ہے۔ 2010 کی کشیدہ صورتِ حال کے بعد وادی میں کوئی اہم واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
راشد کے بقول، ’’برہان وانی ہماری آزادی کے لیے جدوجہد کررہا تھا‘‘۔ پسندیدگی کے یہ کلمات اُس نے 22 برس کے علہدگی پسند کے لیے کہے، جو اِس جنوب ایشیائی خطے میں وسیع پیمانے پر لوگوںٕ کے جذبات کے ترجمان ہیں۔
بقول اُس کے، ’’میں بچپن سےدیکھتا آیا ہوں کہ بھارت (وادی) کے کشمیریوں سے کس طرح سے پیش آتا ہے۔ میں نے بھارت کی سکیورٹی فورسز کی من مانی دیکھی
ہے۔ میں بھارت کو کبھی پسند نہیں کرسکتا‘‘۔
اس کے باوجود، وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنتا بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔
اُس نے کہا کہ ’’مجھے پتہ ہے کہ جو احتجاج ہم بھارت میں کرتے ہیں، پاکستانی فوج ہمیں وہ بھی نہیں کرنے دے گی۔ کم از کم ہم یہاں اپنی آواز تو اٹھاسکتے ہیں‘‘۔
راشد کے جذبات اور اُس کا اظہارِ مایوسی خطے کےکئی افراد کے احساسات کا ترجمان ہے۔
سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد، جموں و کشمیر کے مہاراجہ کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کےساتھ مل جائیں یا آزاد ہو جائیں۔ تشدد کے واقعات کے نتیجے میں وہ بھارت کی جانب راغب ہوئے۔ لیکن کشیدگی اصل میں کبھی ختم نہیں ہوئی۔ جوہری طاقت رکھنے والے دو ملکوں کے تنازع میں سرکاری اور غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اب تک چالیس سے ستر ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عشروں سے جاری اس تنازع میں پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔ علیحدگی پسند، بھارت مخالف اور پاکستان حامی جذبات اب ’’آزادی‘‘ کا رُخ اختیارکرتے جارہے ہیں۔
اب تک رائے عامہ کے چند ہی جائزے سامنے آئے ہیں۔ لیکن، لندن کے ’چیٹم ہاؤس‘ کی جانب سے سب سے مربوط جائزہ شائع ہوچکا ہے۔
https://www.chathamhouse.org/sites/files/chathamhouse/public/Research/Asia/0510pp_kashmir.pdf)
یہ عام جائزہ رپورٹ 2010 میں سامنے آئی، جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ بھارتی اور پاکستانی سرحد کے دونوں اطراف جذبات آزادی کے حق میں ہیں۔ دوسری جانب ہندو اور بودھ اکثریتی علاقوں کے مکین ایسا نہیں چاہتے۔
چیٹم ہاؤس سروے کےمطابق مسلمان اکثریت والی بھارتی وادیِ کشمیر میں بہت بڑی تعداد آزادی کے حق میں ہے۔
سرینگر کے بسنت پارک علاقے کی گلیوں میں آٹو رکشے خالی کھڑے تھے۔
ایک آٹو رکشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، محمد اختر نے کہا کہ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہی ہمارا روزگار ہے، اور یہ یہیں کھڑا ہے‘‘۔ کرفیو کے باعث وہ اور اُن کے دوست کئی روز سے کچھ بھی نہیں کما سکے تھے۔
کمانڈنٹ راجیش یادیو کا تعلق سنٹرل رِیزرو پولیس فورس سے ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو پتا تھا کہ وانی کی ہلاکت کے بعد کچھ لوگ احتجاج کریں گے۔ لیکن وہ لوگوں کی اتنی کثیر تعداد اور غصے کی شدت کی درست پیش گوئی نہیں کرسکے۔
مناسب یہ تھا کہ اس کے لیے پہلے سے کچھ تیاری کرلی جاتی کیونکہ وانی بھارتی کنٹرول والے خطے میں مزاحمت کی ایک علامت تھا۔
طفیل مشتاق، سرینگر کے ایک کالج کا طالب علم ہے۔ اُس کے لیے وانی ایک ہیرو ہے جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ مشتاق نے کہا کہ ’’وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو متحد رکھا جائے، بے انصافی کے خلاف آواز بلند کی جائے لیکن، اُس کی آواز دبا دی گئی‘‘۔
وانی نے اُس وقت شدت پسندی کا رُخ کیا جب اُس کی عمر ابھی 15 برس تھی، جب اُسے سکیورٹی فورسز نے مارا پیٹا تھا۔ یہ بات اُس کے والد نے بھارتی ذرائع ابلاغ کو بتائی۔ اُن کا خاندان نسبتاً خوش حال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اُس کے والد ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ وانی حزب المجاہدین میں شامل ہوا، جو پاکستان کا حامی اور اسلام پسند گروپ ہے، جسے بھارت، یورپی یونین اور امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
وانی کی مقبولیت میں سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ تھا جس کی وجہ سے فوٹوز اور وڈیوز کے ساتھ ساتھ اُسکا نظریاتی پیغام بھی پھیلا۔ سوشل میڈیا پر ڈالی گئی فوٹوز اور ویڈیوز میں وہ اور اس کے ساتھی جنگل میں کرکٹ کھیلتے، کیمپ فائر کے گرد بیٹھے، اور کلاشنکوف رائفل کے ساتھ دکھائی دیتے تھے۔
جو بات اُسے دیگر علہدگی پسندوں سے جدا کرتی تھی وہ یہ تھی کہ اُس نے کبھی اپنا نام نہیں چھپایا، اپنا منہ نہیں ڈھانپا۔ وانی کی دلیری کی وجہ سے اُسے ایک نڈر جنگجو قرار دیا گیا، جو طاقتور بھارت کو للکارتا تھا۔ حالانکہ سکیورٹی فورسز کے مطابق وانی نے کبھی بھی شدت پسند کارروائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اُس کے مداحوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کےساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل تھے جو اسلام پسند اور پاکستان نواز سوچ نہیں رکھتے تھے۔
کشمیر میں مایوسیوں میں اضافہ ہو رہا تھا ،ایسے میں وانی کی ہلاکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سنہ 2003 تک اس جنگجو تحریک کو کافی حد تک کنٹرول کیا گیا تھا، ایسے شواہد تک مل چکے تھے جیسے کوئی حتمی سیاسی حل ہونے ہی والا ہے۔ بھارت اور پاکستان نے سنہ 2004 میں بات چیت کا آغازکیا، اور بھارت کی حکومت نے کشمیری علیحدگی پسند لیڈروں کے ساتھ بات چیت بھی شروع کی۔
سنہ 2007 میں یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت کی داخلی سیاست کی نظر ہو گئے۔ اور جب 2008 میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے ممبئی پرحملہ کیا، تو مفاہمت کا راستہ مکمل بند ہو گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے حالیہ برسوں کےدوران جاری پُرسکون حالات کا موقع ضائع کیا، اور یہ کہ اُس نے ایک پائیدار امن کی تلاش کے لیے کشمیر کےلوگوں کے ساتھ براہِ راست رابطے کا وقت گنوا دیا ہے۔
کئی نوجوانوں نے ’وی او اے ‘کو بتایا کہ بھارت نےکشمیر کے معاملے پر سیاسی حل تلاش کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔
شجاعت بخاری روزنامہ‘ رائزنگ کشمیر‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ سیاسی رابطےکے بغیر، مایوسی نے پھر سے سر اٹھایا۔
اُنھوں نے دلیل پیش کی کہ کشمیر کی اصل سیاسی حساسیت پر دھیان مرکوز رکھنے کے برعکس، اسے امن و امان کا معاملہ قرار دے کر، بھارت نے صورت ِ حال کو بدتر کردیا ہے
سرینگر کے پرانے علاقے میں سڑک کے بیچ بیٹھا لڑکا اس آگ سےاپنے ہاتھ سیک رہا ہے جو بھارت کے خلاف احتجاج کی ایک علامت ہے۔
اس سے ایک گھنٹہ قبل، وہ اور اُس کے دوست سکیورٹی فورسز کےساتھ جھڑپوں میں شریک تھے جہاں انہوں نے سیکیورٹی فورسز پر پتھر اور بوتلیں برسائیں تھیں۔
کچھ ہی دیر بعد، نوجوانوں کا ایک گروپ، اُن کے قریب والی ایک گلی سے نمودار ہوا۔ اُنھوں نے مشعلیں اٹھا رکھی تھیں اور وہ بھارت مخالف نعرے لگا رہےتھے۔
اس بار کشمیری نوجوان بھارت مخالف احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔ خواتین تدفین کے موقعوں پر گھروں سے باہرنکلتی ہیں اور کئی بار سیکیورٹی فورسز کی کاروائی کے دوران ڈھال کا کام کرتی ہیں۔ تاہم، زیادہ تر، خواتین مظاہروں کی اگلی صفوں سے دور رہتی ہیں۔
متعدد تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ نسل کی بھارت کے لئے نفرت سنہ 1990کی دہائی کے دوران بھارتی فوج کی جانب سے ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔
ایڈیٹر شجاعت بخاری نے کہا کہ کشمیر کے زیادہ تر نوجوانوں نے بچپن سے ہی بھارتی سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کو دیکھا ہے۔ وہ بھارت کا مثبت پہلونہیں دیکھ سکے۔
دریائے جہلم کے کنارے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان کا کہنا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیشہ کشمیریوں کی آواز کو دبایا ہے‘‘۔
ساتھ بیٹھے اس کے دوست نے کہا کہ بھارت کشمیر کے عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ بقول اُس کے ’’وہ سیاسی حل نہیں چاہتے، چونکہ اُنھیں ڈر ہےکہ ایسا کرنے سے کہیں کشمیر سے ہاتھ نہ دھونا پڑے‘‘۔
محمد اشرف ایک سابق سرکاری ملازم ہیں اور ایک روزنامے میں کالم نویس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرکار کو سمجھنا ہوگا کہ احتجاج کرنے والے جہادی نہیں ہیں، بلکہ وہ کالج کے طالب علم ہیں جو بھارتی ریاست سے ناراض ہیں۔
یہ نوجوان بھارتی حکومت سے ہی ناراض نہیں بلکہ وہ وادی میں خود مختاری کی تحریک ’حریت کانفرنس‘ سے بھی نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ وہ بھی اس مسئلے کے حل میں ناکام رہی ہے۔
ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اگر حریت رہنما ہمیں احتجاج روکنے کے لئے کہیں گےتو ہم ’’ان‘‘ کا گھر بھی جلا دیں گے۔
طفیل مشتاق، وانی کے حامی طالب علم ہیں، جنھوں نے عہد کیا ہے کہ مظاہرین تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے،جب تک اُنھیں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
طفیل نے ہمیں یہ گرمیوں میں بتایا تھا۔
لیکن اب سرد موسم نے وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ علہدگی پسندوں کے حملے جاری ہیں اوران کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے بھی۔ لیکن یہ مظاہرے اس پیمانے کے نہیں ہیں جیسے کہ گرمیوں میں تھے۔
طفیل مشتاق کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک پرانی کہانی ہے‘‘۔ 2008 اور 2010 میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب مسلسل احتجاج سےعام لوگ پریشان ہونے لگے تو اُنھوں نے دلچسپی لینا بند کردی۔
مشتاق نے کہا کہ ’’ لگتا ہے کہ جیسے میرے والد مجھے 1990 میں ہونے والے گوؤکدال قتل عام کی کہانی سناتے تھے ویسے ہی میں اپنےبچوں کو 2016ء میں ہونے والے تشدد کے واقعات کی کہانی سناؤں گا‘‘
طفیل جیسے نوجوانوں کی امید پوری نہ ہو سکی۔ 2016 کی احتجاجی تحریک کسی مثبت انجام تک پہنچے کی بجائے کشمیر کی تاریخ کا صرف ایک باب بن کر رہ گئی ہے۔
مشتاق کے بقول ’’لوگ سڑکوں پر نکل آئے، وہ ایک مقصد کے لیے لڑنے، مرنے پر تیار تھے لیکن انہیں کوئی رہنما نہیں ملا۔ آزادی کے ہمارے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں گاندھی جیسا لیڈر درکار ہوگا، جو ہمیں متحرک کرے، اور عدم تشدد کے ذریعے عوام کی قیادت کرے‘‘۔
فالحال اپنے کئی دوستوں کی طرح ،مشتاق بھی ایک بہتر زندگی کی تلاش کے لئے وادیِ کشمیر سے باہر جانےکی سوچ رہا ہے۔
تحریر: دیپک ڈوبھال
تصاویر: دیپک ڈوبھال، میراج الدین، اے پی، رائیٹرز
ویڈیو: زبیر ڈار
ویڈیو ایڈیٹنگ: دیپک ڈوبھال
نقشے: مارک سینڈین
شارٹ ہینڈ ایڈیٹنگ: دیپک ڈوبھال، الزبتھ ایرٹ
ترجمہ: خلیل بوگیو
ادارت: محمد عاطف