(AFP)
غزہ میں جاری جنگ کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ یہ جنگ حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے سے شروع ہوئی تھی جسے امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ تب سے اس جنگ میں کئی اہم موڑ آ چکے ہیں جن میں بڑی فوجی کارروائیاں اور جنگ رکوانے کے لیے سفارتی اور سیاسی کوششیں شامل ہیں۔ یہ لڑائی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کی تاریخ کی سب سے خوں ریز جنگ بن چکی ہے۔
از ایلکس گینڈلر | وی او اے نیوز
(AFP)
حماس نے دیگر فلسطینی عسکری گروہوں کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملہ کیا۔ ان تنظیموں نے اس حملے کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے، مغربی کنارے میں آباد کاروں کے تشدد اور فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا ردِ عمل قرار دیا۔ اس حملے کے دوران اسرائیل پر غزہ سے ہزاروں راکٹ فائر کیے گئے جب کہ جنگجو ٹرک، بلڈوزر، کشتیوں اور پیراگلائیڈنگ کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔
عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے پولیس اسٹیشنز، فوجی چھاؤنیوں اور سرحدی چوکیوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادیوں اور گھروں پر بھی حملہ کیا۔ دو میوزک فیسٹیولز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل کے لیے حماس کا یہ حملہ ایک سرپرائز تھا۔ تاہم اسرائیلی فورسز نے جلد ہی جوابی کارروائی شروع کر دی جس کے باعث عسکریت پسند پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے ریزرو دستوں کو طلب کر لیا گیا۔ اسرائیل نے غزہ جانے والی تمام سرحدی گزرگاہیں بند کردیں اور غزہ کو خوراک، بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی۔ اسرائیلی فوج نے حماس کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی شروع کر دیے۔
اسرائیل کی کابینہ نے حماس کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اپوزیشن لیڈر بینی گینتز کے ساتھ مل کر ایک ہنگامی قومی حکومت بنا لی۔
(AFP)
اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی علاقوں کے 10 لاکھ سے زائد رہائشیوں کو علاقہ خالی کر کے جنوب کی طرف جانے کے احکامات دیے اور سرحد پار چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ البتہ اسرائیلی فوج پورے غزہ پر ہی فضائی حملے کرتی رہی بشمول ان علاقوں کے جنہیں خود اس نے سیف زون یا محفوظ قرار دیا تھا۔
(Reuters)
ابتدائی رپورٹس میں الزام لگایا گیا تھا کہ یہ ہلاکتیں اسرائیلی فوج کے فضائی حملے میں ہوئیں۔ لیکن بعد ازاں یہ تجزیے بھی کیے گئے کہ دھماکہ کسی فلسطینی راکٹ کا بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ دھماکے کی اصل وجہ کا تعین اب تک نہیں ہو سکا ہے۔
(AFP)
مصر کی ثالثی سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت نو اکتوبر سے بند رفح بارڈر کراسنگ کو محدود پیمانے پر غزہ کو امداد کی فراہمی کے لیے کھولا گیا۔
(AFP)
اسرائیلی فورسز نے فضائی حملے اور شیلنگ جاری رکھتے ہوئے غزہ میں مواصلات کے تمام ذرائع بھی بند کر دیے۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کی کارروائیوں کا مقصد حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور اپنے یرغمالوں کو آزاد کرانا ہے۔ اکتوبر کے آخر تک شمالی غزہ میں ایک تہائی عمارتیں یا تو مکمل تباہ ہو چکی تھیں یا انہیں نقصان پہنچا تھا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں تقریباً 10 ہزار فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔
(Reuters)
جبالیا سمیت غزہ کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔ اسی دوران سویلین اہداف کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی فوج پر عالمی تنقید میں اضافہ ہوا۔ وسطی غزہ میں ایک رہائشی عمارت، الشفاء اسپتال کے قریب ایک ایمبولینس اور واضح شناخت کے باوجود 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' کے امدادی قافلے کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی فوج کو تنقید کا سامنا رہا۔ تاہم اسرائیل نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کی تردید کی۔
(Reuters)
اسپتال میں اسرائیلی فوج کی کارروائی پر شدید عالمی ردِعمل سامنے آیا۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ اسپتال کی عمارت کو حماس کے کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اسرائیل نے عمارت کے نیچے مبینہ سرنگوں کی ویڈیوز بھی جاری کیں۔
(AFP)
حماس نے 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 105 یرغمالوں کو رہا کیا۔ تاہم فریقین کے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات اور مزید یرغمالوں کی رہائی پر اختلافات کے باعث جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔
(AFP)
خان یونس اور غزہ کے دیگر علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری رہیں۔ دسمبر کے اختتام تک غزہ کی وزارتِ صحت نے بتایا کہ غزہ کی ایک فی صد آبادی یعنی 20 ہزار فلسطینی اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل میں اس وقت غم و غصہ دیکھا گیا جب سفید جھنڈا لہراتے ہوئے اسرائیلی فوج کی جانب آنے والے تین یرغمالوں کو اسرائیلی فوج نے غلطی سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
(AFP)
غزہ کی جنوب مشرقی سرحد کے قریب عمارتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کے دوران اسرائیلی فوج کے ریزرو دستے کے 21 اہل کار مارے گئے۔ دریں اثنا اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے شمالی غزہ میں حماس کی عسکری صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن عسکریت پسند دوبارہ منظم ہوتے دکھائی دیے۔
(Reuters)
جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر ایک مقدمے میں عالمی عدالتِ انصاف نے حکم دیا کہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لیکن عدالت نے جنگ بندی کے احکامات جاری نہیں کیے۔ اسی روز اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے عملے پر سات اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ اس الزام کے بعد امریکہ اور ایجنسی کو عطیات دینے والے کئی مغربی ملکوں نے ادارے کی فنڈنگ معطل کر دی۔
(AFP)
اس اعلان نے عالمی تشویش کو جنم دیا کیوں کہ رفح میں غزہ کے دیگر حصوں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔ رفح میں غزہ کی سب سے اہم سرحدی گزرگاہ بھی ہے جو اسے مصر سے ملاتی ہے۔
(AFP)
یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اسرائیلی فوجیوں نے امداد تقسیم کرنے والے ایک ٹرک کے گرد جمع ہوجانے والے لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے صرف وارننگ دینے کے لیے گولیاں چلائی تھیں اور زیادہ تر ہلاکتیں بھگدڑ مچنے سے ہوئیں۔
(AP)
امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ سمندر کے راستے سے غزہ کو امداد کی ترسیل آسان بنانے کے لیے ایک تیرتی ہوئی عارضی بندرگاہ تعمیر کرے گا۔ علاوہ ازیں عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے میں ترمیم کرتے ہوئے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ غزہ کو خوراک اور طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔
(AP)
امدادی تنظیم 'ورلڈ سینٹرل کچن' کی گاڑیوں پر اسرائیلی فوج کے میزائل حملوں میں سات امدادی کارکن ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں امریکہ، کینیڈا، پولینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے شہری شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد کئی امدادی تنظیموں نے غزہ میں اپنی سرگرمیاں معطل کردیں۔ امریکہ کے دباؤ پر غزہ کی شمالی سرحد پر ایریز کراسنگ کو جنگ کے دوران پہلی بار کھولا گیا۔
انخلا کے اعلان کے بعد حملے کچھ دیر کے لیے تھمے جس کے بعد دوبارہ اسرائیلی فوج نے شدید فضائی حملے شروع کر دیے۔ اسی دوران اسرائیلی افواج نے اعلان کیا کہ وہ رفح پر حملے کی تیاری کر رہی ہے۔
رفح پر ابتدائی طور پر پوری طاقت سے حملے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لیکن امریکہ کی مخالفت کے بعد اس کا دائرہ کار محاصرے اور ٹارگٹڈ کارروائیوں تک محدود کر دیا گیا۔ اسرائیلی حکومت نے عالمی عدالتِ انصاف کا رفح میں آپریشن روکنے کا حکم بھی مسترد کردیا۔
(Reuters)
اس آپریشن کے دوران 200 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے۔ رپورٹس کے مطابق یہ آپریشن امریکی انٹیلی جینس کی مدد سے کیا گیا۔
(AFP)
اسکولوں اور پناہ گزینوں کی بستیوں پر اسرائیل کے حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں فلسیطینی مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ ان مقامات پر حماس کے عسکریت پسند موجود تھے۔ اقوامِ متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کا غزہ میں ہیڈکوارٹر بھی تباہ ہوگیا۔
(AP)
عام تاثر یہی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل اسرائیل نے کیا۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے براہِ راست اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
(Reuters)
غزہ میں 25 سال بعد پولیو کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد فریقین نے کچھ علاقوں میں عارضی جنگ بندی کی تاکہ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی مہم چلائی جا سکے۔ یہ مہم کامیاب رہی اور غزہ میں 90 فی صد فلسطینی بچوں کو پولیو ویکسین کی پہلی خوراک دے دی گئی۔
سات اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینی
50 ہزار
40738 ہلاکتیں
40 ہزار
30 ہزار
20,000
10 ہزار
0
اکتوبر 2023
جنوری 2024
اپریل 2024
اگست 2024
ماخذ: غزہ کی وزارتِ صحت
ایک سال سے جاری لڑائی کے بعد اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کی عسکری قوت تباہ کر دی گئی ہے۔ لیکن جنگ بندی کا معاہدہ تاحال نہیں ہو سکا ہے۔ ساتھ ہی ایران کی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ اسرائیل کی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور جنگ کے پورے خطے میں پھیلنے کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماخذ: ACLED
ماخذ: ACLED
ماخذ: ACLED