وی او اے ایکسٹریم ازم واچ ڈیسک
ترکی کے رہنے والے رشید طغرل نے سوشل میڈیا پر اپنے بہت سے پرستار بنائے تھے۔ اس کی وجہ اس کی اپنے آبائی وطن میں رات کے وقت آسمان کی کھینچی گئی وہ سحر انگیز تصویریں تھیں جو اس نے سوشل میڈیا پر جاری کی تھیں۔ وہ اپنی تصویریں نیشنل جیوگرافک کی ویب سائٹ پر شیئر کیا کرتا تھا۔ ایسی ہی ایک تصویر رات کے وقت ایک روشن کہکشاں کے پس منظر میں صنوبر کے ایک درخت کی تھی۔ اس نے فن لینڈ کے ایک اعلی درجے کی یونیورسٹی میں ایسٹرو فزکس یعنی فلکی طبعیات پڑھنے کے لیے داخلہ لیا۔ وہ وجیہہ و شکیل اور ذہین نوجوان تھا جسے مہم جوئی اور گھومنے پھرنے کا شوق تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اجرامِ فلکی سے متعلق کسی شعبے میں نام کمائے گا۔
لیکن شاید طغرل کو اس سے کچھ زیادہ کی خواہش تھی۔ وہ ایک قدامت پسند مسلمان خاندان میں پلا بڑھا، نماز روزے کا پابند نوجوان تھا۔ کالج میں پڑھائی کے دوران اس کا میلان جہادی ویب سائٹوں کی جانب مبذول ہوا۔ اور ان ویب سائٹوں پر موجود اسلام کی شدت پسند تفسیریں اور تشریحات اس کے دل میں گھر کر گئیں۔ سن دو ہزار پندرہ کے اوائل میں وہ اپنا خاندان اور ایک اچھی خاصی آرام دہ زندگی چھوڑ کر دہشت گرد تنظیم داعش کی اس شاخ میں شامل ہوگیا جو شام میں نبرد آزما تھی۔
لیکن گزشتہ اگست میں کُرد فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے طغرل مارا گیا۔ اس کی عمر صرف 27 برس تھی۔
داعش کے نظریات، تشہیر اور نشر و اشاعت سے متاثر ہو کر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان نوجوان عراق اور شام جا چکے ہیں، جہاں اس تنظیم نے خود ساختہ خلافت قائم کی ہوئی ہے۔ یہ نوجوان، اِس دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو کر پرتشدد انتہا پسندی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ طغرل کی طرح ، بہت سوں نے اپنی آرام دہ زندگی اور روشن مسقبل کو چھوڑ کر اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی ۔ کئی اعتبار سے طغرل کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ اس نے ایک عشرے پر محیط اپنی تبدیلی کی کہانی کو بڑی تفصیل سے تصویروں اور تحریروں کی شکل میں چھوڑا ہے۔
اِن برسوں کے دوران طغرل نے خود اپنی، اپنی بلی کی، اور اجرامِ فلکی کے مناظر کی تصاویر، خلا اور دین کے بارے میں خیالات، اور بے دینوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر چھوڑی ہیں۔ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک تفصیلی خط میں اس نے داعش کے ساتھ گزرے اپنے شب و روز کے تجربات تاریخ وار بیان کیے ہیں۔ اس خط میں اس پر چھانے والی اکتاہٹ، سخت اور صبر آزما ٹریننگ، اور فضائی حملوں سے بچنے کا ذکر ملتا ہے۔ اس نے داعش کی اختیار کردہ وحشیانہ کاروائیوں کا زبردست دفاع کیا ہے۔ ان کاروائیوں میں لوگوں کے سر قلم کرنا اور عورتوں کو جنسی غلام بنا کر رکھنا شامل ہیں۔
طغرل نے اپنے فیس بک پیج پر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "جو کوئی بھی جہاد میں حصہ لیے بغیر یا جہاد کے متعلق سوچے بغیر مر گیا، وہ ایک منافق ہے"۔ محمد عبدالفاضل جیسے معروف عا لم کا کہنا ہے کہ مسلح شدت پسند، دین اور جہاد کی غلط تشریح کرتے ہیں، حالانکہ اسلام تو درحقیقت دہشت گردی اور غیر مسلح عام لوگوں پر حملوں کی مذمت کرتا ہے۔
طغرل کیسے انتہا پسندی کی راہ پر چل نکلا اور پھر ایک متشدد انجام کو پہنچا؟ یہ جواب حاصل کرنے کے لیے وائس آف امریکہ کے صحافیوں کی ایک ٹیم نے طغرل کے سوشل میڈیا پر جاری کردہ پیغامات، اور شام میں گزرے اس کے ابتدائی دنوں کے بارے میں 14 صفحات پر مشتمل اس کے ایک خط کو تُرک زبان سے ترجمہ کیا ہے۔ اس ٹیم نے طغرل کے چند دوستوں اور ساتھیوں کے انٹرویو بھی کیے۔ اس کے علاوہ دیگر ذرائع کو بھی کھنگالا گیا، جس میں اس کے والد کا ایک مختصر انٹرویو بھی شامل ہے۔
جہاد وہ راہ نہیں تھی جس پر طغرل نے بچپن سے نوجوانی تک کا سفر کیا تھا۔ اس کی فطری خوش مذاقی، اس کی متجسس اور مشتاق طبعیت اور اس کی ذہانت بھی اس طرف اشارہ نہیں کررہی تھیں۔ اس کی زندگی اور الم ناک موت، آپ کو اس داستان کا مطالعہ کرنے پر اکساتی ہے، کہ کیسے نوجوان مسلمان داعش کے فریبی نظریات کا شکار بنتے ہیں۔
مذہبی پس منظر
طغرل کی پیدائش انقرہ کے سنکان صوبے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی خاندان میں ہوئی۔ وہ تین بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔ اس کے والد نے ترک ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ ایک ہائی اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ اس کا بڑا بھائی ایک سوفٹ ویئر انجینئر ہے اور موسیقی کا شوق رکھتا ہے۔ اس کی چھوٹی بہن، ابھی زیرِ تعلیم ہے، اور اس کے چچا ریاضی کے پروفیسر ہیں۔
اس کے والد سلیمان طغرل 2008ء سے لیکر 2014ء تک اسلام کے بارے میں بلاگ لکھتے رہے، جس میں وہ اپنی شاعری اور قدامت پسند خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ "قرآن میں نظامِ اقدار" پر لکھا تھا، جس میں انہوں نے عسکریت پسند جہاد کی تائید کی تھی، اور یہودیوں اور مسیحیوں پر خدا اور رسول پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے لعنت و ملامت کی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ایسے لوگوں کے لیے ایک اذیت ناک سزا انتظار کر رہی ہے۔
سلیمان طغرل اور ان کی اہلیہ نے، ہائی اسکول میں ، رشید کا داخلہ نجی طور پر قرآن پڑھنے کیلئے کرایا تھا۔ وہاں رہنے والے مذہبی خاندانوں میں یہ ایک عام رواج ہے۔
کھلنڈرا اور ذہین
سن دوہزار سات کے آخری مہینوں میں طغرل نے مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں طبعیات پڑھنے کیلئے داخلہ لیا۔ اس یونیورسٹی کو، ترکی کی ہارورڈ یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک پرانے ہم جماعت، نی ہات چیلک نے بتایا کہ یونیورسٹی کا سیکولر ماحول، اس کے آبائی علاقے اور گھریلو زندگی سے بہت مختلف تھا۔ طغرل کے اسی دوست نے اس کی سوشل میڈیا پرجاری کردہ تحریروں کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔
چیلک بتاتے ہیں کہ وہ دن کے وقت تو یونیورسٹی کے ایک آزاد ماحول میں رہتا تھا۔ لیکن رات کے وقت، وہ اپنے مذہبی اور قدامت پسند خاندان کے ساتھ گھر میں ہوتا تھا، اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ زندگی کے بارے میں ایک دوسرے سےبالکل مختلف نظریات کو ایک ساتھ ضم کرسکے۔
ہاں اس یونیورسٹی میں ، طغرل ، فوٹو گرافی اور علم فلکیات میں دلچسپی ، اور بعض أوقات اپنی احمقانہ شرارتوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ سیکیورٹی وجوہات کی بِنا پر اپنا نام خفیہ رکھنےکی شرط پر ، اس کے ایک پروفیسر نےبتایا کہ وہ غیر معمولی طور پر ذہین تھا۔ وہ بہت اچھے سولات پوچھتا تھا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ طغرل بہترین طالب علم نہیں تھا، کیونکہ وہ نظم و ضبط کی پابندی نہیں کرتا تھا، اور اکثر کلاسوں میں غیر حاضر ہوتا تھا۔
یونیورسٹی میں ، طغرل نے اجرام فلکی کے مطالعےسے متعلق ایک کلب میں شمولیت اختیار کی، اور یہاں اس کی دوستی کلب کے سربراہ اتُک بوراچ سے ہوئی۔ کیمپنگ سفر کے دوران ، یہ دونوں رات کے وقت آسمان کا مطالعہ کرتے۔ بورتچ نے وی او اے کو بتایا کہ اُنہوں نے عوام کیلئے، توبی تک نیشنل آبزرویٹری کی جانب سے ستاروں کا نظارہ کرنے کی سالانہ عوامی تقریب کے انعقادمیں مدد کی تھی۔
طغرل نے دو ہزار دس میں، اجرام فلکی اور آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کی اپنی کھینچی ہوئی تصاویر کو نیشنل جیوگرافک ممبر پیج پر شیئر کرنا شروع کر دیا تھا۔ سن دو ہزار بارہ میں، اُس نے ناسا کی جانب سے منعقدہ ایک تصویری مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس نے اپنا نام نُکلیئر کیدی یا نیوکلئیر کیٹ رکھا، جو اس کی بلیوں کیلئے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
بے باک اور من موجی
اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر، اس کے ایک دوست نے بتایا کہ طغرل شگفتگی اور کبھی کبھار بے ڈھنگے مزاج کی وجہ سے ہر چیز کا مذاق اڑایا کرتا تھا، اور لطیفے بھی سنایا کرتا تھا۔ اسی دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ تنگ لباس پہن کر یونیورسٹی آگیا ۔ ایک اور مرتبہ وہ بغیر قمیض پہنے نیکر میں آگیا تھا۔
اس کے دوست نے بتایا کہ اُسے سائیکل چلانے، سفر کرنے اور تیراکی کا بہت شوق تھا، جس سے وہ جسمانی طور پر چست اورتوانا رہتا تھا۔ ایک دفعہ اس کی طبیعت میں اکتاہٹ پیدا ہوئی، تو انقرہ سے سائکل چلاتا ہوا کونیا پہنچ گیا۔ کونیا ،انقرہ سے دو سو باسٹھ کلو میٹر یا ایک سو ترسٹھ میل دور ہے۔
کاؤچ سرفنگ نامی ایک ویب سائٹ پر طغرل نے لکھا کہ مجھے علم ہے کہ زیادہ تر لوگ مجھے پاگل کہیں گے، لیکن ساتھ ہی وہ میرے جیسا بھی بننا چاہتے ہیں، کیونکہ میں وہی کرتا ہوں جو میرا دل چاہتا ہے۔ میرا اتنے لمبے فاصلے تک سائیکل چلانا شاید اس کا ایک ثبوت ہے۔
مجھے ہنسنا پسند ہے اور میں لوگوں کو ہنساتا بھی ہوں، گو کہ میں کبھی کبھار رو بھی لیتا ہوں۔ میرے ساتھ رہنے والے اکثر أوقات اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
شدت پسندی کی دہلیز پر
مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ، طغرل اسلامی تعلیمات کا پابند رہا، لیکن وہ اُن لوگوں سے آزادانہ ملا جلا کرتا تھا، جو اس کی طرح نماز روزے کے پابند نہیں تھے اور نشے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ، اُس کے ایک دوسرے دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم سب شراب پی رہے تھے۔ طغرل نے ہمارے ساتھ شراب تو نہیں پی، لیکن شراب سے پرہیز کرنے پر اس نے ا پنا مذاق خوب اڑایا ۔
سن دوہزار تیرہ میں اس نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی، اور مذہب کی جانب زیادہ دھیان دینا شروع کر دیا۔ اس دوست بورتاچ نے بتایا کہ کہ اس میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ اس نے اپنے آپ کو، یونیو رسٹی کی سیکولر اکثریت سے دور کر لیا۔ اس نے داڑھی رکھ لی، اور داعش کے ارکان کی تقلید میں ، بال ترشوانے چھوڑ دئے۔ اس نے فیس بک پر تنقیدی جملہ لکھا کہ، جب بھی آپ اپنے بھائیوں کے ماتھے چوم کر ان سے ملتے ہو ،تو ایم ای ٹی یو میں موجود کمیونسٹ، فوراً اکٹھا ہو کر ہنستے ہیں۔
بورتاچ نے بتایا کہ اس کا زیادہ تر وقت،مسجد جانے والوں کیساتھ گذرنا شروع ہوا، اور وہ گھنٹوں قرآن کے ایک ایک لفظ پر بات چیت کرتا۔ ایک مرتبہ اس نے فیس بک میں قرآن پر کچھ لکھا، اورمیں نے اس کے جواب میں کچھ لکھا تا کہ اس سے اس موضوع پر بات چیت چل سکے، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کے دوست چیلک نے بتایا کہ بعض أوقات وہ کئی دنوں تک قرآنی تعلیمات کو پڑھتا رہتا، یہاں تک مسجد میں دو ہفتے گزار دیتا ۔ اس دوست نے کہا کہ میرے کے دوست کی انتہا پسندی کی جانب رغبت کی ایک وجہ، مسجد کا مطالعاتی گروپ بھی ہے۔ سن دوہزار چودہ کے موسمِ بہار تک، اس گروپ کا ایک لڑکا شام یا عراق میں جنگ کرنے کیلئے چلا گیا، چیلک کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں اس کا کیا بنا۔
جریدے نیوز ویک نے طغرل پر ایک مضمون چھاپا تھا۔ سن دوہزار پندرہ میں جہادیوں کو بھرتی کرنے کے بارے میں ، نیوز ویک میں چھپنے والے ایک مضمون میں کہا گیا کہ سابق مسجد مطالعاتی گروپ کے ایک لڑکے نے داعش میں شمولیت اختیار کی اور طغرل کو وہاں سے جہادی ویڈیو بھیجتا رہا۔مضمون میں کہا گیا کہ وہ ترک جن کی ہمدردیاں داعش کیساتھ تھیں، وہ ترک حکومت کی نظروں سے اس لئے بچتے رہے، کیونکہ اس وقت حکومت کی زیادہ تر توجہ، اُن غیر ملکی عسکریت پسندوں پر تھی ، جو اس کی سرحد پار کر کے شام میں جاتے تھے۔
ایم ای ٹی یو کے فزکس شعبے کے ایک ساتھی نے ترکی کے روزنامے بر جُن کو بتایا کہ اپنی خطابانہ صلاحیتوں کی وجہ سے، طغرل کبھی کبھار یونیورسٹی کی مسجد میں نماز کی اِمامت کیا کرتاتھا۔ یہ دونوں ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
جلد ہی طغرل نے کھلے عام، جہاد کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ فیس بک پر، اس نے شام کے عام شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا، جو اس کے مطابق، روسی، شامی اور امریکی قیادت میں بننے والے اتحاد کی فضائی کاروائیوں میں ہلاک ہو ئےتھے۔ اس نے ترک حکومت اور معاشرے کی بھی اعلانیہ مذمت شروع کر دی۔
چیلک کا کہنا ہے کہ وقتاً فوقتاً اس نے سرکاری بد عنوانیوں اور رشوت ستانی پر تنقید شروع کر دی، اور اس کے نزدیک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت ، اسلام کی غلط تشریح کر رہی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے فن لینڈ کا سفر
سن دوہزار چودہ کے موسم بہار میں اس نے ایم ای ٹی یو سے تعلیم مکمل کر لی۔ اسی سال موس، خزاں مین، وہ اس نے فن لینڈ کی معروف ترین یونیورسٹی میں ایم اے فزکس میں داخلہ لے لیا۔ اس نے یہاں کے موسم اور جغرافیائی ماحول میں ایک دم ڈرامائی تبدیلی کو پسند کیا، اور فیس بک پرلکھا کہ یقیناً میرا حالیہ کیمپس، میرے پرانے کیمپس سے کہیں بہتر ہے۔
سوشل میڈیا پر طغرل نے بہت سی تصویریں جاری کیں، اور سکینڈے نیویا کے اس ملک کے دلکش اور رنگین موسمِ خزاں پر تحیر کا اظہار بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بلیوں، گلہریوں اور دیگر جانوروں کی تصویریں بھی جاری کرتا رہا۔
طغرل کا دھیان اپنی تعلیم کی جانب ذرا کم تھا۔ وہ زیادہ تر شہر میں موجود مسجدِ النور کے چکر لگاتا رہتا تھا۔
اس کے ساتھ رہنے والے، اینبو پاسکانو نے روزنامہ برجن کو بتایا کہ وہ کلاسوں میں غیر حاضر رہتا، لیکن اس کا زیادہ تر وقت مسجد میں گزرتایا جب گھر پہ ہوتا تو انٹرنیٹ پر۔
پوسکانو کا کہنا تھا کہ طغرل اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ داعش میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ وی او اے کی پوسکانو تک رسائی نہیں ہو سکی۔
طغرل کے پرانے دوست، بورتاچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اپنے دوست کو داڑھی رکھنے پر چھیڑتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے مذاق میں اس سے پوچھا، کہ وہ اس حلیے میں تمہیں کیسے فن لینڈ میں آنے دیں گے۔ کیا وہ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم جہاد پرجا رہے ہو۔
بورتاچ کے مطابق، طغرل نے فوراً جواب دیا تھا کہ وہ تمہارے حلیے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ تمہارے اردوں سے تمہیں جانچتے ہیں۔
روزنامہ بر جن کے مطابق، اس طالب علم کے ارادوں سے شک و شبہ پیدا ہونے لگا، سن دوہزار چودہ کے آواخر میں ، فن لینڈ کے سیکیورٹی حکام نے اس کے خلاف تفتیش کا آغاز کر دیا۔ طغرل پر نیوز ویک میں چھپنے والی خبر میں بھی کہا گیا ہے کہ پولیس اس کے فیس بک پر جاری کردہ پیغامات سے چونک گئی تھی، اور اس نے کیمپس سے باہر، طغرل سے پوچھ گچھ شروع کر دی تھی۔
وہاں مسجد کے صدر، خالد بیلا مائن وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فن لینڈ کے سیکیورٹی افسران نے طغرل کے بارے میں ان سے رابطہ کیا تھا۔ لیکن خالد کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بالمشافہ طغرل سے نہیں ملے تھے، اور کوئی بھی اس کو یہاں نہیں جانتا تھا۔
خالد کا کہنا تھا کہ وہ دیر گئے مسجد آتا تھا یہاں کسی سے بات نہیں کرتا تھا، اگر مجھے اس کے بارے میں کوئی شک گزرتا، تو یقنیاً اس کی رپورٹ بھجوا دیتا۔
یونیورسٹی میں موسم سرما کی تعطیلات کیلئے فن لینڈ چھوڑنے سے پہلے، طغرل نے اپنے فیس بک پر لکھا کہ میں اپنے ڈی ایس ایل آر کیمرے کیساتھ ہیلسنکی کیتھڈرل گیا اور وہاں سے لیپ لینڈ علاقے کے فیلز ہوسٹل گیا کیونکہ اس کا مالک میرے طرح ایک تجربہ کار فوٹو گرافر تھا۔
دھوکے سے فرار
جہاد پر جانے سے پہلے ، طغرل واپس انقرہ میں اپنے گھر لوٹ آیا، جسے اس نے صرف سرائے کے طور پر استعمال کیا ۔ دس جنوری سن دوہزار پندرہ کو اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ وہ ایم ای ٹی یو میں اپنے اپنے دوستوں کیساتھ ایک رات گزارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہاں کے بجائے، وہ ایک ہلکا سا بیگ ساتھ لیکر، شام کے سفر پر روانہ ہوا۔
بعد میں طغرل نے لکھا کہ جانے سے پہلے میں نے اپنا سب کچھ اللہ کے بھروسے پر چھوڑ دیا ۔
وہ گاڑیوں سے لفٹ لیکر، اور کبھی بسوں پر دھکے کھاتا چلتا رہا۔ اس نے لکھا ایک روز اچانک مجھے یاد آیا کہ میں اپنا کیمرہ تو گھر بھول آیا ہوں۔ وہ ہر جگہہ اسے ساتھ لیکر جاتا تھا،اور آسمان کی، اپنے ارد گرد کی، اور اپنے ارتقا کا ریکارڈ بناتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس طرح کی بھول چوک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
شام میں داخلہ
یہ یادداشتیں، اور پھر بعد میں جو کچھ ہوا، اس کا ذکر طغرل نے اپنے طویل خط میں کیا ہے۔ جب شام میں ، اس کی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہوتی تھی، تو تب ، اس خط کو مختلف حصوں میں لکھا گیا ہے۔ اس خط کا عنوان ، خلافت کی سرزمین سے تسلیمات، رکھا گیا۔ اس نے اس خط کو پچیس مارچ سن دو ہزار پندرہ میں کھلے عام انٹرنیٹ پر شیئر کیا۔
ترکی کی جنوب مشرقی سرحد پر واقع شہر ، سان لیورفا میں اس کی ملاقات، تیونس، لیبیا، اور سعودی عرب سے آنے والے مردوں کیساتھ ہوئی، جو سب داعش کیلئے لڑنا چاہتے تھے۔ یہ سب نے غیر قانونی طور پر شام میں داخل ہو ئے۔ طغرل نے اپنے آپ کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم دیر تک بھاگتے رہے۔ ایک بھاری سوٹ کیس ساتھ نہ لانا، میری داشمندی تھی۔
داعش کے لمبے بالوں والے ایک افغان رکن نے، ان سب کا استقبال کیا، انہیں گاڑی میں بٹھا کر وہ داعش کے ایک لمبے سیاہ پرچم کے سامنے سے گزرا۔ انہیں ایک ایسے گھر میں لے جایا گیا جہاں شمعیں روشن تھیں۔ ان کے پاسپورٹ، الیکٹرانک اشیا، اور دیگر سامان لے لیا گیا۔ تاہم طغرل نے داعش کے ایک عسکریت پسند کو قائل کیا کہ چند منٹ دئے جائیں تا کہ وہ فون پر اپنے خاندان کو ایک ای میل بھیج سکے
اس نے لکھا کہ سگنل پوری طرح نہ آنے کی وجہ سے، انٹرنیٹ تک رسائی مشکل ہو رہی تھی، اور اس سے پہلے کہ میں اپنی تمام ای میلیں بھیج سکتا، میرا فون ضبط کر لیا گیا۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں کہاں جا رہا ہوں، چلو جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔
داعش والوں نے نئے آنے والوں سے پوچھ گچھ کی، اور ہر ایک کو نئی کنّیت دی۔ طغرل نے لکھا کہ مجھے أبو ہریرہ کی کنیت عطا ہوئی جس کے معنی ہیں، بلی کا باپ۔
بھائی چارہ اور بد دلی
کئی دنوں بعد، طغرل کو ایک دوسرے مکان میں منتقل کیا گیا، جہاں پر دیواروں پر گولیاں لگنے کے نشانات تھے۔ اس نے لکھا کہ شاید اس پر جنگ میں مالِ غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا تھا۔ اس گھر میں بیس کے قریب لوگ تھے۔ طغرل نے ان کے نسلی تنوع اور داعش کیلئے حمایت کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک، جرمنی میں پیشہ ور کک باکسر تھا۔ ایک دوسرا، بنگلہ دیش سے آنے والا مکینیکل انجینئر تھا۔ ایک اور تھا جو فرانسیسی جیل سے رہا ہونے کے بعد سیدھا یہاں پہنچا تھا۔ ایک شخص، چین سےیہاں پندرہ ہزار ڈالر ادا کر کے پہنچا تھا۔
کچھ اور دن گزرنے کے بعد، طغرل سمیت آٹھ نئے ارکان کو ایک منی بس میں رقّہ بھیج دیا گیا، جسے داعش نے اپنا دارالخلافہ مقرر کیا تھا۔ انہیں بڑی خوشی سے رخصت کیا گیا تھا، اور اپنے باقی ساتھیوں سے، جانے والوں نے کہا تھا کہ اب جنت میں ملاقات ہو گی۔
جنگ پر بھیجے جانے سے پہلے، طغرل نے رقہ کی سیر کی۔ اس دوران وہ بے تابی سے شریعت کی تعلیم، اور جسمانی تربیت مکمل ہونے کا انتطار کرر ہا تھا۔ اپنے خط میں اس نے لکھا تھا کہ یہ ایک بڑا اور پر ہجوم شہر ہے۔ لوگ معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ داعش کا سب سے اچھا رخ یہ ہے کہ ہر جگہہ تمباکو نوشی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تاہم اس نے ڈیزل کے جلنے سے اٹھنے والے دھوئیں کی بو ہر طرف پھیلے رہنے کی شکایت کی تھی، جو موٹر سائیکلوں اور ہیٹروں سے نکل رہا تھا۔
رقہ میں طغرل دو ہفتے تک دیگر غیر ملکی نوآ موز ارکان کیساتھ ایک ایسے گھر میں رہا، جہاں سردی تھی اورپانی کی قلت تھی۔ انہیں کھانے کے لیے صرف انڈے دئے جاتے تھے۔ اس کا گلا خراب ہو گیا تھا، لیکن یہ اُن دہلا دینے والے فضائی حملوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی شکایت تھی، جن کی وجہ سے کھڑکیا ں اور دروازے لرز اُٹھتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بہت تیز ہوا چل چل رہی ہو۔ ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اب بم ہمارے سروں پر گرا کہ گرا۔
جنگ کی تیاری
ان کئی ماہ کے دوران، طغرل ، رقہ میں اور اس کے ارد گرد ، ایک سے دوسرے گھر منتقل ہوتا رہا، اور پھر حمس بھیج دیا گیا۔ اپنے خط میں، اس نے سردی، گندگی اور پر ہجوٕم جگہوں پر رہنے کی شکایت کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم تقریباً تیس کے قریب لوگ، ایک کمرے میں سوتے ہیں، اور ہر روز ان لوگوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ایک وقت پر اس کی رہائش ایک دم قدیم طرز کی تھی، ایک غار میں،۔ حالانکہ داعش نے اس غار کو سپنج کے گدے ، کپڑے دھونے کی مشینوں اور بجلی پیدا کرنے والے جینریٹروں سے آراستہ کیا تھا۔ طغرل نے لکھا کہ بہت سی اشیا مالِ غنیمت کے طور پر لی گئی تھیں، جن میں اقوام متحدہ کی جانب سے مہیا کئے جانے والے کمبل شامل تھے، جو یقیناً پناہ گزینوں کیلئے بھیجے گئے تھے۔
اس غار میں طغرل کی جسمانی تربیت کا آغاز ہوا۔ اس میں مینڈک کی طرح لمبی چھلانگ لگانے اور کیچڑ میں رینگنے کی مشق شامل تھی۔ طغرل نے فن لینڈ سے خریدی ہوئی پینٹ اور جیکٹ پہن رکھی تھی، اور کیچڑ میں رینگنا نہیں چاہتا تھا، لیکن وہ لکھتا ہے کہ مجھے یہ سب کرنا پڑا، اور اس نے یہاں آنے خواہشمندوں کو مشورہ دیا کہ وہ دکھائی نہ دینے والے رنگین کپڑے پہن کر آئیں۔
غار میں اس کے ساتھیوں میں، برطانیہ سے آیا ہوا ایک سول انجینئر اور اس کا بیٹا شامل تھے۔ طغرل نے لکھا کہ انہیں اجرام فلکی کے بارے میں تھوڑا بہت پتہ تھا، اور میں نے انتظار کئے بغیر انہیں بتانا شروع کر دیا۔ ہر چند کہ غار میں بجلی موجود تھی، لیکن زیادہ تر شہر کو یہ میسر نہ تھی۔ اس لئے کوئی بھی مصنوعی،روشنی، آسمان پر چمکتے ستاروں کی روشنی کو ماند نہیں کر سکتی تھی۔
اس نے لکھا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامک سٹیٹ میں تقریباً ہر جگہہ آسمان صاف و شفاف نظر آتا ہے۔
فضائی حملے کا خوف
اس نے لکھا کہ تقریبا ہر جگہہ، فضائی کاروائیوں نے نئے آنے والوں کی جان نہ چھوڑی۔ صدر بشار الا سد کیا افواج کے طیارے، ہر روز ہمارے اوپر سے گزرتے تھے۔ فضا سے گرائے جانے والا ایک بم تو ہمارے اتنے قریب آ کرپھٹا، کہ اس کی آواز سے ہمارے کان بہرے ہو گئے، اور اس کے گرنے سے ہمارے قریب ہی ایک بڑا سے گڑھا بن گیا۔
طغرل غار میں رہنے سے تنگ آگیا تھا۔ اور اس نے داعش کے ساتھ اپنے اختلافات کو تسلیم کیا ہے۔ طغرل نے ناقص صفائی ستھرائی ، ناقص انتظامِ کار، اور کچھ ارکان کے مشکوک اغراض و مقاصد کے بارے میں لکھا ہے۔ القاعدہ سے منسلک ال نصرہ فرنٹ کیساتھ رہنے والے ایک رکن نے طغرل کو بتایا کہ چند ایسے مجاہدین ہیں، جو دنیاوی مقاصد لیکر یہاں آئے ہیں، کیونکہ انہیں داعش کی جانب سے اچھی رقم اور رہنے کو اچھی رہائش ملتی ہے۔
لیکن پھر بھی طغرل کے دل و دماغ پر ایک تصوراتی مستقبل چھایا ہوا تھا
طغرل نے لکھا کہ داعش ایک شاندار ریاست ہے۔ ہاں یہ ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن لوگوں کی غلطیوں میں ریاست کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہاں پر کارگزاریاں پوری طرح سے درست نہیں ہیں، صفائی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، اور ٹریفک قوانین کا نفاذ نہیں ہے۔ لیکن ہم ایک ایک کر کے، ہر چیز کو درست کر لیں گے، خاص کر یہاں آنے والے تارکینِ وطن کی مدد سے۔ غیر ملکی جنگجوں کے لیے داعش تارکینِ وطن کی اسطلاح استعمال کرتی ہے
میدانِ جنگ میں
کم از کم ایک ماہ تک غار میں رہنے کے بعد، طغرل کے ساتھ پانچ دیگر کو، کمانڈو کے طور پر منتخب کیا گیا، اور انہیں تسلیم شدہ داعش لڑاکوں کے ایک گروپ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔
طغرل نے لکھا کہ حالات ایک دم بدل گئے۔ ان کمانڈو کوحمس سے باہر ایک گھر میں منتقل کیا گیا۔ ہر شخص کو ایک نیا کمبل دیا گیا۔ اور ان کا تاجک باورچی، ایسے کھانے بناتا جن سے وہ آشنا تھے۔ گوشت کیلئے، ہر ہفتے ایک بھیڑ ذبح کی جاتی۔ کیلے اور مالٹے ہر روز کھانے کو ملتے، اور ہر روز چار چھوٹے چاکلیٹ بھی کھانے کوملتے۔
چونکہ طغرل نے ایم ای ٹی یو میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کی تھی، اسلئے پہلی جنگ میں اسے طبی امداد فراہم کرنے کا کام سونپا گیا۔ وہ لکھتا ہے کہ میں ڈاکٹر تھا، کیونکہ طب کا تھوڑا بہت علم بھی یہاں کام آسکتا تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ میں نے پہلی دفعہ یہاں گولیا ںچلنے کی آواز سنی، اور جیسے ہی ہم ٹینکوں اور توپوں کی آوازیں سنتے، ہم پہاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے۔ گھنٹوں تک یخ بستہ ہوائیں اور بارش کے بعد، اِنہیں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ اس نے لکھا کہ یہاں خیمے میں قائم ہسپتال میں، دو لاشیں اور چھہ زخمی تھے، اور ہر طرف خون کی بو پھیلی ہوئی تھی۔
مظالم کا دفاع
اپنے خط میں طغرل نے لکھا ہے کہ ایک اور رات میدانِ جنگ میں گزارنے کے بعد، وہ فتح مندی کا إحساس لئے اپنے ساتھی مجاہدین کے ساتھ واپس آگئے۔ مال غنیمت کے طور پر دو ٹینک، ایک چھوٹا ٹرک، چند راکٹ ، اور تین قلم کئے سر ملے تھے۔
بعد ازاں، اپنے پرانے دوست بورتاچ کیساتھ، فیس بک پر پیغامات کے تبادلے میں، طغرل نے داعش کی جانب سے سر قلم کئے جانے کا دفاع کیا تھا۔ بورتاچ نے پوچھا تھا کہ طغرل کیوں ایک ایسے گروپ کے ساتھ شامل ہے جو معصوم انسانوں کا سر قلم کر دیتے ہیں۔ یہ تو پاگل پن ہے۔
جواب میں طغرل نے لکھا تھا کہ اسلامی حکومت کو مسترد کرنے والے، جو امریکہ کے غلام بن چکے ہیں، اور شامی حکومت کے حامیوں کیلئے، جنہوں نے بہت سے معصوم شہریوں کا قتل کیا ہے، یہ انصاف پر مبنی صرف ایک سزا ہے۔ اسی طرح اس نے داعش کے جہادیوں کی جانب سے خواتین کو جنسی غلام بنانے کا بھی دفاع کیا تھا، جن میں زیادہ تر کا تعلق، یزیدی مذہبی اقلیت سے تھا۔
اس نے بورتاچ کو لکھا تھا کہ سر قلم کرنا سٹریٹیجک مقاصد کیلئے ہے،۔ یہ سب دشمنوں کو ڈرانے کے واسطے، صرف ٹیلیوژن پر چلانے کیلئے ہے۔ وہ جب اسے دیکھیں گے ، تو وہ ہم سے خوفزدہ ہو کر بھاگ جائیں گے۔
جہادی کی شادی
اپریل سن دوہزار پندرہ کے وسط میں، سرحدی قصبے، تل ابیض میں کرد جنگ جووں سے لڑتے ہوئے زخمی ہو گیا۔ اسے نامعلوم زخموں سے ، صحت یاب ہونے کیلئے، رقہ بھیج دیا گیا۔
اگلے مہینے ، اس نے، ترکی سے تعلق رکھنے والی داعش کی حامی،عائشہ زہرہ اتا ترکی سے شادی کر لی۔
اس نے فیس بک پر بھیجے گئے اپنے ایک پہلے پیغام میں لکھا تھا ، چھہ دیگر مجاہدین کے ساتھ ایک گھر میں رہنے والے، غیر شادی شدہ جہادی کی تنخواہ ایک سو ڈالر ماہوار ہے ۔ غیر ملکی جہادیوں کو چار ماہ کے اندر شادی کرنا ہو تی ہے۔ داعش اِنہیں ایک گھر اور انکی بیویوں اور بچوں کیلئے علیحدہ مالی امداد بھی دیتی ہے۔
شادی کے بعد، طغرل نے سوشل میڈیا سے ڈرامائی انداز میں کنارہ کشی اختیار کی۔ بورتاچ نے فیس بک پر اس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ایک دم خاموش کیوں ہو گیا ہے، اُسے امید تھی کہ وہ اُسے ترکی واپس بلانے پر آمادہ کر سکے گا۔
بورتاچ نے وی او اے کو بتایا کہ جواب میں طغرل نے لکھا کہ اس کی ابھی شادی ہوئی ہے، اور اس کی بیوی اس بات سے جلتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اتنا وقت کیوں گزارتا ہے ، میں اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ مذاق کر رہا تھا یا وہ واقعی سنجیدہ تھا۔
طغرل کی جانب سے فیس بک اور ٹویٹر پر آنے والے پیغامات کے تواتر میں ذرا کمی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں بھیجے گئےپیغامات میں ، طغرل نے شدت پسند جہاد ، اور مصمم تقوی کیلئے اپنی بڑھتی ہوئی امنگوں کا اظہار کیا تھا۔ اس نے روسیوں، شامیوں اور امریکی قیادت میں ہونے والی فضائی کاروائیوں، اور عام شہریوں کی ہلاکتوں پر احتجاج کیا تھا۔ وہ ہر کام شرعی قوانین کے مطابق کرنے کی وکالت کرتا تھا، جس میں کھانا کھانے سے لیکر، غسل خانے تک جانا شامل تھا۔
فیس بک پر اس نے شامی عربوں پر تنقید کی تھی، جو اس کے نزدیک، پوری طرح سے قرآن کی تلاوت یا باقاعدہ اسلامی طریقے سے سلام بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس نے لکھا تھا کہ جب میں کہتا ہوں کہ سلام و علیکم، تو رقہ کے عام شہری جواب میں کہتے ہیں ہیلو، اور میں اس جواب سے تنگ آ گیا ہوں۔
"ملحدین" کے لیے "جہنم کا ٹکٹ"
تاہم وہ پرانا طغرل جسے سائینس سے پیار تھا، ابھی پوری طرح سے مرا نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھار، اپنی محفوظ کی ہوئی، اجرام فلکی سے متعلق پرانی تصویریں جاری کر دیتا تھا۔ وہ ارضیات، اور دوا ساز کمپنیوں ،اور کمپیوٹر میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت ستاروں کی طرح لا محدود ہوجانے کے بارے میں اپنے خیالات لکھتا رہتا ۔
ٹویٹر پر، وہ چند سائینسدانوں کے کام کی تعریف کرتا، جیسے کہ امریکی تھیوریٹیکل فزسٹ مرحوم رچرڈ فین مین۔ گو کہ وہ انہیں تنبیہہ کرنے سے باز نہیں آتا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اسلام قبول کر لیں۔ ایک دفعہ طغرل کی ملاقات نوبیل انعام حاصل کرنے والے، امریکی فز سٹ والٹر کوہن کیساتھ ہوئی تھی۔ اس کی ملاقات کی تصویر بھی اتاری گئی تھی۔ تاہم سن دوہزار پندرہ میں کوہن کے مرنے کے بعد، طغرل نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا، کہ بطور غیر مسلم انتقال کرنے والے اس سائینسدان نے بد قسمتی سے جہنم کا ٹکٹ حاصل کیا تھا۔
داعش نے سوشل میڈیا پر بتایا تھا کہ اگست کے اوائل میں، رقہ کے شمال میں امریکی پشت پناہی والے کردوں سے لڑتے ہوئے، طغرل مارا گیا۔ وہ وہاں اس وقت جنگ کر رہا تھا جب داعش کے قدم اکھڑ رہے تھے۔
وائس آف امریکہ کیساتھ ایک انٹرویو میں ، ہلاک ہونے والے اس جہادی کے والد نے بتایا تھا کہ طغرل کی بیوی نے فون پر اس کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی، اور یہ کہ اسے شام ہی میں دفنایا جائے گا۔
وسط اگست میں، وائس آف امریکہ کے ایک رپورٹر کو، طغرل کے والد، سلیمان طغرل نے بتایا تھا، وہ طغرل کی میت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں اس نے ترک حکام سے تفتیش کرنے کو کہا ہے۔ سلیمان طغرل نے کہا کہ و ہ نہیں جانتے کہ اس کی موت کیسے ہوئی۔ ہم نے اس معاملے کو انقرہ کے استغاثہ کے دفتر کے سامنے رکھا ہے، اور اب ان کے جواب کا انتظار ہے۔ وی او اے کا رپورٹر انقرہ میں ان کے فلیٹ پر ملاقات کیلئے گیا تھا۔
اس کے بعد، طغرل کے والد نے مزید بات کرنے سے انکار کر دیا، ور دیگر رشتےداروں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔
"اچھا تو پھر جنت میں ملیں گے!!"
طغرل کا فیس بک پر آخری پیغام، اس کے ہلاک ہونے سے ایک ماہ بعد، اکتیس اگست کو نظر آیا۔ اس پیغام میں لکھا گیا تھا کہ اگر میں ایک طویل عرصے تک کچھ نہ لکھوں، تو سمجھ لیجئے گا کہ اس دنیا میں میرا وقت ختم ہوا، اور میں حیاتِ بعد از مرگ کی منزل میں داخل ہوگیا ہوں ۔ دعا کیجئے گا کہ اللہ، مجھے ایک شہید کےطور پر قبول فرمائے۔ اس پیغام کو خود کار طور پر رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ حیات بعد اا مرگ آپ سے ملاقات ہو گی۔
اس کا فیس بک پیج ابھی تک قائم ہے، لیکن اس کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو حال ہی میں بند کر دیا گیا تھا۔ وی او اے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال پر، ٹویٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوہزار پندرہ کے وسط میں، تین لاکھ ساٹھ ہزار ٹویٹر اکاؤنٹ اس لئے بند کر دئے تھے، کیونکہ ان میں دہشت گرد اقدامات کی دھمکی دینے یا انہیں ہوا دینے کی بات کی گئی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر اکاؤنٹ داعش کے ارکان کے تھے۔
صالح دو جان، برطانیہ میں قائم کیل یونیورسٹی میں سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات، اور سیکیورٹی امور کے محقق ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق، ترکی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہر چند کہ وہ سب، شاید شام میں، دمشق کے علاقے سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں سے متاثر ہوئے ہوں ، لیکن اُن ارکان کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے کچھ، ایک قدامت پسند خاندان میں پرورش پانے کے بعد، جہادی نظریات سے متاثر ہوئے ہوں، یا محسوس کرتے ہوں کہ اُنہیں غیر منصفانہ انداز میں ہدف بنایا گیا ہے، یا اپنی کم حیثیت یا مالی فوائد کی توقع میں وہاں گئے ہوں۔
اِنہوں نے ایک دفعہ، رات کے وقت ایک سمجھ میں نہ آنے والی، تیز چمکدار روشنی کو دیکھا تھا۔ بورتاچ کا خیال تھا کہ وہ یو ایف او ہوسکتا ہے۔ رشید نے اس کی بات کو خاموشی سے سننے کے بعد، اس پر کچھ تحقیق کی تھی۔ اس نے
بعد میں مجھے کہا تھا کہ ارے احمق وہ تو ایک سیٹیلائٹ تھا۔ بعد میں اس نے مجھے سمجھایا تھا کہ تحقیق کے بغیر کبھی بھی نتائج اخذ نہیں کرنے چاہئیں۔
?
بورتاچ سوچتا ہے کہ ، طغرل کیسے داعش کے جھوٹے پراپیگینڈے اور ظلم کے فریب میں آیا۔
وہ کہتاہے کہ اس سے میرے اندر یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کیسے یہاں تک پہنچا۔ وہ ایک خوش مزاج لڑکا تھا جو کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ وہی لڑکا ، سر قلم کئے جانے کی توجیہہ پیش کرتا ہے۔
طغرل کے ایم ای ٹی یو کے ہم جماعت، چیلک نے یہ نظریہ پیش کیا کہ طغرل دو مختلف دنیاؤں کے درمیان کوئی پل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ذہن میں سخت انتشار تذبذب کا شکار تھا، کیونکہ ایک جانب تو مذہب
تھا اور دوسری جانب سائینس۔۔۔۔۔
چیلک کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس کا اندروں تاریکی کا شکار تھا، اور مجھے یہ إحساس اس کے داعش میں شمولیت سے پہلے ہوا تھا۔
یہ رپورٹ واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کی ایکسٹریم ازم واچ ڈیسک سے وابستہ اوزے بولوت، قاسم جندے میر اور ریکار حسین نے تیار کی جب کہ دلدیز یازیجی اولو نے انقرہ سے اس پر کام کیا۔ رپورٹ میں استعمال کی جانے والی بیشتر تصاویر رشید طغرل کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس سے حاصل کی گئیں جب کہ دیگر تصویروں کا حوالہ ان کے ساتھ موجود ہے۔